اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) اسلام آبادہائی کورٹ نے مذہبی جماعت اور حکومت کے درمیان معاہدہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس یا پھر وفاقی کابینہ میں پیش کرکے آئین اور قانون کی کسوٹی پر پرکھ کر توثیق کرانے کے دو آپشنز دے دیئے ،جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ دہشتگردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کیسے ختم کیے جاسکتے ہیں، مجروح میں ہوا، زخمی میں ہوا، ریاست کون ہوتی ہے فیصلہ کرنے والی دوسرے آپشن میں
عدالت نے تجویز کیا کہ معاہدے اور ثالثی کو وفاقی کابینہ کے سامنے رکھ کر آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ کیا جائے۔ اٹارنی جنرل نے دوسری تجویز سے اتفاق کیا اور کہا کہ ہم اس معاملے کو خود دیکھیں گے سوموار کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی نے فیض آباد دھرنا کیس کی سماعت کرتے ہوئے مذہبی جماعت اور حکومت کے درمیان معاہدے میں فوج کی ثالثی پر قانونی معاونت کیلئے وقت درکار ہے، تیاری کرکے تفصیلی رپورٹ پیش کروں گا، حکمنامے میں توقع ظاہر کی گئی ہے کہ سیکرٹری دفاع اس معاملے کی تحقیق کریں گے کہ کس طرح ایک متنازع معاہدے میں آرمی چیف کا نام استعمال ہوا۔ اور اس ذمہ دار شخص کی نشاندہی کی جائے گی۔جس کی وجہ سے ادارے کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس سے پہلے دوران سماعت آئی بی کی طرف سے پولیس آپریشن کی ناکامی پر سربمہر رپورٹ پیش کی گئی۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ریمارکس دیے کہ دھرنا قائدین اور منتظمین خود توہین رسالت کے مرتکب ہوئے، دھرنا قائدین اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی ایک شق بھی قانون کے مطابق نہیں ہے، دہشتگردی ایکٹ کے تحت درج مقدمات کیسے ختم کیے جاسکتے ہیں مجروح میں ہوا، زخمی میں ہوا، ریاست کون ہوتی ہے فیصلہ کرنے والی؟ عدالت اس معاہدے کی توثیق نہیں کرسکتی، جب تک پولیس والوں کی تسلی نہیں کی جاتی مقدمات ختم نہیں ہونے دیں گے، عدالت نے کیس کی سماعت 12 جنوری ملتوی کردی۔