اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا کہ اختیارات پارلیمان کے پاس ہوں گے، ورنہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا، پاکستان کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا، قوم کو نظر انداز کر کے معاملات آگے نہیں بڑھائے جا سکتے ٗسیاستدانوں کو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے کھیل سے باہر نکلنا ہو گا ٗہمیں تاریخ سے سبق پڑھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے ٗپاناما پیپرز میں سینکڑوں لوگوں کے نام تھے،
اب باقی لوگوں سے کون پوچھے گا؟ ۔وہ اتوار کو یہاں مقامی ہوٹل میں ادبی و ثقافتی تنظیم ’’آئینہ‘‘ کے زیر اہتمام اپنی نئی کتاب ’’زندہ تاریخ‘‘ کی تقریب رونمائی سے خطاب کررہے تھے۔ چیئرمین سینٹ میاں رضا ربانی تقریب کے مہمان خصوصی تھے۔ تقریب سے وفاقی وزراء خواجہ سعد رفیق، مشاہد اللہ خان، سینیٹر افراسیاب خٹک، رکن قومی اسمبلی عائشہ سید، معروف کالم نگار حفیظ اللہ نیازی اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔ جاوید ہاشمی نے تقریب رونمائی منعقد کرنے پر منتظمین کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کی یہ کتاب ایک سال کے عرصے میں روزمرہ پیش آنے والے واقعات پر مشتمل ہے اور اسے پڑھتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ آج کے حالات ہوں کیونکہ گزشتہ دس بارہ برسوں میں کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں تاریخ سے سبق پڑھتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے، 1967ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر تقریر کی تھی، جب بھٹو صاحب اقتدارمیں آ گئے تو ان کی لاٹھیاں میرے کندھوں پر پڑیں، بھٹو صاحب کی پھانسی پر ہم نے کوئی احتجاج نہیں کیا، ماضی میں سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہوتے رہے ہیں، سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کر اپنا نقصان کیا ہے، اب ہمیں اس کھیل سے باہر نکلنا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ سیاستدانوں سے بھی غلطیاں ہوتی ہیں تاہم اصل چیز تجربات سے سیکھ کر آگے بڑھنا ہے، معجزات ہوتے رہتے ہیں،
خواجہ سعد رفیق بھی ایک سیاستدان ہیں اور انہوں نے ریلوے کو بہتر بنا کر معجزہ کر دکھایا ہے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے کہا کہ پاناما پیپرز میں سینکڑوں لوگوں کے نام تھے، اب باقی لوگوں سے کون پوچھے گا؟ اس لئے میں کہتا ہوں کہ معاملات کو صاف ستھرا رکھنا ہو گا ٗ احتساب پر مبنی نظام بنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ قوم کو نظر انداز کر کے معاملات کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا ٗایک سوچ یہ تھی کہ پاکستان کو طاقتور کیسے بنایا جائے، آج ہم اس سوچ میں پھنس گئے ہیں کہ پاکستان کو ہم کیسے محفوظ بنائیں،
میری جنگ پاکستان کے آج پیدا ہونے والے بچے کے حقوق کی جنگ ہے، پاکستان کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ تحریک انصاف سے اپنی علیحدگی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان کے پاس پارلیمان کی نشست تھی اور وہ تحریک انصاف کے پارلیمانی بورڈ کے سربراہ بھی تھے لیکن انہوں نے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا، میں سمجھتا تھا کہ اس وقت جو کچھ ہو رہا تھا وہ ملک کے لئے درست نہیں تھا، اس سے ملک کا نقصان ہو رہا تھا، ہمیں اس قوم کی توہین نہیں کرنی چاہیے کیونکہ یہ قوم اپنے ملک سے محبت کرنے والی قوم ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب وہ فیصلہ کن مرحلہ آن پہنچا ہے کہ ہمیں اختیارات پارلیمان کو دینے ہوں گے ورنہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گا۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کی رکن قومی اسمبلی عائشہ سید نے کہا کہ مخدوم جاوید ہاشمی ایسے سیاستدان ہیں جنہیں عوام پسند کرتے ہیں، وہ قومی اسمبلی میں ہمارے کولیگ رہے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ عوام کے مسائل کے حل کے لئے اسمبلی کے بزنس میں دلچسپی لی ہے، جب انہوں نے استعفیٰ دیا تھا تو اسے مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی۔
عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر افراسیاب خٹک نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بعض لوگ پارلیمان سے باہر بیٹھ کر فیصلے تھوپنا چاہتے ہیں جن کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہے، اس ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانا ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیاء میں نئی صف بندی ہو رہی ہے اور اس کا اچھا پہلو یہ ہے کہ پاکستان چین کا اچھا دوست اور پڑوسی ملک ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیں دیگر ہمسایوں کے ساتھ بھی تعلقات کو بہتر بنانا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر ہم ترقی و خوشحالی کے منازل طے نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ جب تک مشرف کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جاتا اس وقت تک احتساب مذاق کے سوا کچھ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاشمی صاحب کا ورثہ نئی نسل کو منتقل ہونا چاہیے، پاکستان کو سیاستدانوں نے بنایا ہے اور سیاستدان ہی اس ملک کا مستقبل سنواریں گے۔ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کے تمام ادارے آئینی حدود میں رہیں ا د اروں کے درمیان محاذ آرائی وفاق کے لیے خطرہ ہے،ریاست کو اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق ہیں لازم ہے کہ ملک کے تمام ادارے اکٹھے ہوں۔
انہوں نے کہا کہ جاوید ہاشمی نے ہمیشہ سچ کی سیاست کی ہے انہیں جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں۔انہوں نے کہا کہ جنھو ں نے دور طالب علمی سے سیاست میں حصہ لیا وہ اپنے نظریے پر قائم رہے۔چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا کہ جاوید ہاشمی اپنے طالبعلمی سے آج تک مسلسل جدوجہد میں رہے ہیں ، انہوں اصولی اور سچ کی سیاست کی ہے جس کے نتیجے میں ان کو تکالیف اور جیل کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑی ہیں وہ یقینی طور پر ان چند سیاستدانوں میں سے ہیں جن کا ماضی اور حال بے داغ ہے اور وہ یقینی طور پر نوجوانوں کیلئے ایک مثال ہیں ،
نوجوانوں کو اس مثال کو آگے لیکر چلنا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ اکثر وہ سیاستدان جو طالبعلمی سے ہی سیاست میں حصہ لیں وہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں لیکن یہ افسوس کی بات ہے کہ ریاست نے ضیاء الحق کے دور کے اندر سوچے سمجھے منصوبے کے اندر فیصلہ کیا ہے پاکستان کے اندر طلباء تنظیموں اور سٹوڈنٹس یونین پر پابندی لگا دی جائے لیکن پابندی بھی ایسی لگی کہ ترقی پسند تنظیموں کو تو کام کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی لیکن انتہا پسند تنظیموں کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں کھلی چھوٹ تھی ۔ انہوں نے کہا کہ آج اگر دہشت گرد یونیورسٹیوں اور کالجز سے پیدا ہو رہے ہیں تو وجہ یہ ہے کہ ریاست نے خود یہ حالات پیدا کئے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ طلباء تنظیموں پر پابندی ختم کی جائے ،ریاست کو جو اندرونی اور بیرونی خدشات لاحق ہیں اس میں لازم ہے کہ تمام ادارے ایک پیج پر ہوں ، تمام ادارے اپنا کردار آئین کے تحت دیے ہوئے دائرہ کار میں پورا کریں ، اداروں کے درمیان محاذ آرائی وفاقی کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی ۔ دوسری حقیقت بھی جنم لے رہی ہے ضروری ہے کہ ہر سیاسی جماعت اس کا نوٹس لے کہ بدقسمتی سے ایک بار پھر مذہب کو سیاسی ایجنڈا آگے بڑھانے کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ، پاکستان کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ،آئین کے اندر آرٹیکل2کہتا ہے کہ ریاست کا مذہب اسلام ہے ،
جب آئین میں یہ بات درج ہے تو پھر اسلام کو پاکستان کے اندر خطرہ کس سے ہوسکتا ہے ،کیا ہم بھول گئے ہیں کہ آرٹیکل256کہتا ہے کہ پرائیویٹ لشکر نہیں بنائے جا سکتے ، آرٹیکل256 کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہورہی ہے ،کیا وہ سپاہی جو اپنی آنکھ کھو بیٹھا ریاست نے معمولی مرہم پٹی کر کے گاؤں بجھوا دیا ، کیا یہ ظلم نہیں ہے ، کیا ریاست کی رٹ کو چیلنج نہیں کیا گیا ،ریاست کی رٹ کو مکمل طور پر ختم کر دیا گیا ، جب رٹ کو ختم کر رہے ہیں تو آپ کس چیز کو جنم لے رہے ہیں ، آپ وار لارڈ ازم کو جنم دے رہے ہیں ، پاکستان وارلارڈ ازم کا متحمل نہیں ہوسکتا۔انہوں نے کہا کہ جاوید ہاشمی کی جدوجہد ایسے وفاق کیلئے تھی جس میں آئین کی حکمرانی ہو۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے معروف کالم نگار حفیظ اللہ نیازی نے کہا کہ ان کا اور جاوید ہاشمی کا 45 برس کا ساتھ ہے، مخدوم صاحب نے ایک بھرپور زندگی گزاری ہے، انہوں نے اپنی کتاب میں کئی انکشافات کئے ہیں، یہ ہاشمی صاحب کی خود نوشت سوانح نہیں بلکہ احساسات کی ترجمانی ہے۔