اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)مولانا طارق جمیل نے گزشتہ دنوں ن لیگ کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف سے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا میں ملاقات کی۔ مولانا طارق جمیل نے ملاقات میں نواز شریف کو رائیونڈ میں ہونے والے عالمی تبلیغی اجتماع میں شرکت کی دعوت دی۔ مولانا طارق جمیل کی نواز شریف کے بعد ملاقات کے بعد سوشل میڈیا اور پاکستان کے میڈیا نے اس خبر کو
نمایاں کر کے نشر اور شائع کیا ۔ سوشل میڈیا پر موجود چند پیجز نے اس حوالے سے مولانا طارق جمیل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور نواز شریف کے سیاسی حریفوں نے بھی مولانا طارق جمیل کی نواز شریف سے ملاقات کو درپردہ ہونے والے عوامل کی کڑی قرار دیتے ہوئے مولانا طارق جمیل پر تنقید کی۔ مولانا طارق جمیل کی نواز شریف سے ملاقات سے قبل بھی مولانا طارق جمیل سوشل میڈیا پر شدید تنقید کا شکار رہے۔ ان کی مختلف شخصیات سے ملاقاتیں جاری رہیں جن میں نہ صرف سیاسی بلکہ شوبز کیساتھ کئی غیر ملکی شخصیات جنہیں پاکستان میں چند حلقے ناپسند کرتے تھے سے ملاقاتوں پر سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کیا گیا۔ یہاں ہم نواز شریف سے ملاقات سے قبل مولانا طارق جمیل کی ان شخصیات سے ملاقاتوں کا حوالہ دینے جا رہے ہیں جن سے ملاقات نے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کیا جبکہ میڈیا کی جانب سے بھی مولانا پر نشتر برسائے گئے۔ مولاناطارق جمیل پر سب سے پہلے ان کے مسلک کی جانب سے علمائے کرام نے تنقید کی جب مولانا طارق جمیل نے جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودیؒ کی تعریف کی اور اس کے بعد منصورہ گئے،(’’خلافت اور ملوکیت‘‘نامی کتاب جس پر مولانا مودودیؒ پر سخت تنقید کی گئی اور اس تنقید کے بعد مولانا مودودی ؒ اس کتاب کے چند حصے حذف کرنے پر مجبور ہوئے ، اس کتاب پر سب سے زیادہ تنقید دیوبندی مکتب فکر
کے علمائے کرام نے کی تھی)اس وقت مولانا طارق جمیل پر تنقید کرنے والوں نے کہا کہ کہ دیکھو ’’خلافت اور ملوکیت لکھنے والے کی تعریف کرتے ہیں، جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں جماعت کے قائدین سے ملاقات پر بھی مولانا طارق جمیل پر نہ صرف مذہبی بلکہ سیاسی حلقوں کی جانب سے بھی تنقید کی گئی، مولانا طارق جمیل تنقید کے نشتر چبھونے والوں کو دعائیں دیتے رہے
اور جماعت اسلامی کی قیادت سے سلسلہ نہ توڑا، آپ نے جماعت اسلامی کے سابق امیر منور حسن سے ملاقات کی، وہ گئے تو سراج الحق سے ملنے پہنچ گئے۔ مولانا طارق جمیل پر اس وقت تو انتہا کر دی گئی جب وہ ملاقات کیلئے علامہ طاہر القادری کے پاس جا پہنچے، اور پھر اس کے بعد موہری شریف چلے گئے۔ مولانا کی طاہر القادری سے ملاقات اور موہری شریف جانے پر انہیں یار
لوگوں نے بدعتی تک قرار دیدیا، مگر مولانا طارق جمیل نے اس کی پرواہ نہ کی۔ ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ مولانا طارق جمیل ایک بار پھر میڈیا اور سوشل میڈیا کی زینت بن گئے ، اب کی بار مولانا طارق جمیل کی ڈاکٹر ذاکر نائیک سے ملاقات کی تصاویر نے ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ ناقدین نے مولانا طارق جمیل کو اب کی بار غیر مقلد قرار دیدیا، گمراہی اور شدت پسندوں کی قربت کے طعنے
ملنے لگ گئے، مولانا طارق جمیل سمجھ کر بھی نا سمجھا کر گئے۔ مولانا طارق جمیل ابھی سوشل میڈیا کا ہی شکار ہوئے تھے کہ پاکستانی میڈیا کی ایک بڑی اور باوقار شخصیت آپ کے سامنے آکھڑی ہوئی اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ سینئر صحافی نصرت جاوید تھے جنہوں نے ایک پروگرام میں مولانا طارق جمیل کو منافق قرار دیدیا۔ ایک دن گزرا مولانا طارق جمیل اگلے دن شام کے نصرت جاوید کے
پروگرام میں بذریعہ کال موجود تھے اور دیکھنے والے اس وقت حیرت زدہ رہ گئے جب نصرت جاوید کو کوئی سخت جواب دینے کے بجائے مولانا طارق جمیل کے منہ سے ان کیلئے دعائیں نکل رہی تھیں، ناقدین پھر بھی باز نہ آئے اور اسے مولانا طارق جمیل کی مداحن قرار دیدیا۔ انہی دنوں ملک میں غیر ملکی سازشوں کی وجہ سے فرقہ واریت کی عفریت کھل چکی تھی اور پاکستان کا شمالی علاقہ
بری طرح اس عفریت کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ مولانا طارق جمیل نے مسلکی بنیادوں پر نفرت کے بیج بونے والوں اور اپنی دکانیں چمکانے والوں کے خلاف بغیر تلوار اٹھائے انہیں شکست دینے کا فیصلہ کیا اور جب یہ عفریت جوبن پر آچکا تھا آپ نے امام بارگاہوں کے دورے شروع کر دئیے، تنقید کرنے والے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اس وقت بجائے فرقہ واریت کی وجہ سے لوگوں کی دوریوں کم
کرنے پر سراہا جاتا مولانا طارق جمیل کو شیعہ قرار دیدیا گیا اور اسی پر بس نہیں کی گئی بلکہ انہیں رافضی تک کہہ دیا گیا، مگر مولانا تو مولانا تھے اس چیز کا اثر لئے بغیر آگے بڑھ گئے، چند سال پہلے کراچی جل رہا تھا ، ہر گلی سے جنازے اٹھ رہے تھے ، ایک ہی شہر میں مہاجر، بلوچ، سندھی، پنجابی، پختون ریاستیں وجود میں آچکی تھیں۔ ہر علاقے کا طاقتور گروپ بھاری ہتھیاروں کے
ساتھ مسلح اور ایک دوسرے کے خلاف مورچہ بند تھا۔ اچانک مولانا ٹی وی پر نمودار ہوئے اور دیکھنے والوں نے دیکھا کہ مولانا ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے باہر میڈیا نمائندوں کے سامنے اس جماعت کی قیادت کے ہمراہ شہر میں امن کی دعا کرتے نظر آرہے ہیں، یہیں پر بس نہیں کی بلکہ پختونوں کے زیر اثر علاقے میں جا پہنچے اور اپنی تقریر سے سخت دلوں کو نرم کر دیا، وہاں سے اٹھے
تو لیاری جا پہنچے اور گینگسٹر کے بیچ میں بیٹھ کر انہیں خوف خدا اور آخرت کی ایسی تصویر دکھائی کہ شرکائے محفل دھاڑیں مار مار کر رونے لگے، ناقدین ایک بار پھر نشتر چبھونے لگ گئے، مگر مولانا کو کیا فرق پڑنا تھا، آپ کی تبلیغ جاری رہی۔ ابھی ملک میں نئے نئے انتخابات ہوئے تھے، یہ 2013کی بات ہے، مولانا طارق جمیل عمران خان کو ریحام خان سے دوسری شادی کی مبارکباد
دینے ان کے گھر جا پہنچے، اہل خانہ کے ساتھ بیٹھ کر تناول کیا، دعائیں اور نصیحتیں کیں اور چلے آئے، مخالفین ایک بار پھر سرگرم ہوئے اور کہنے لگے کہ دیکھو دیکھو یہودیوں کے ایجنٹ سے ملنے چلا گیا، یہ تو صریح گمراہی میں پڑ گیا، مولانا نے سنا اور لاپرواہی کا مظاہرہ کیا اور آگے بڑھنے کیلئے قدم اٹھا دئیے، ابھی عمران خان سے ملاقات کا طوفان نہیں تھما تھا کہ بھارتی اداکار عامر خان
سے ان کی ملاقات نے انہیں ایک بار پھر سوشل میڈیا کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا، ایک بار پھرتنقید کے زہر میں بجھے تیر مولانا کی جانب اچھال دئیے گئے، آپ کا مزاجِ لاپرواہی تریاق بن گیا۔مولانا دبئی کے تبلیغی دورے پر تھےکسی ساتھی نے بتایا کہ پاکستانی اداکارہ وینا ملک دبئی میں ایک پاکستانی نوجوان سے شادی کر رہی ہے، مولانا نے ملنے کی خواہش کا اظہار کر دیا، مولانا وینا ملک
اور اسد خٹک کے گھر جا پہنچے، ڈھیر ساری دعائیں دیں، وینا ملک کو بیٹی بنا کر سر پر ہاتھ رکھا اور چلے آئے،وینا ملک نے اپنے ایک انٹرویو میں بتایا کہ مولانا طارق جمیل نے جب انہیں بیٹی کہا تو ان کی آنکھ سے اشک رواں کی نہر بہہ نکلی کیونکہ شوبز کی دنیا میں اور باہر انہیں ان کے سگے ماں باپ کے علاوہ کسی نے بیٹی کا درجہ نہیں دیا تھااور مولانا نے جب بیٹی کہا تو شوبز
چھوڑنے کا ارادہ کر لیا، وینا ملک سے ملاقات کی تصاویر سامنے آئیں تو ایک بار پھر ناقدین نے سنگ باری شروع کر دی اور مولانا مسکرا کر دعائیں دیتے آگے بڑھ گئے اور ویسے ہی رہے۔ اب سامنے آیا ہے کہ مولانا پانامہ کیس میں نا اہل ہونے والے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات کیلئے ان کی رہائش گاہ جاتی امرا جا پہنچے اور سنا ہے دعائوں کا ٹوکرا بھی لے کر گئے تھے جو وہاں ہدیہ کر آئے۔
ناقدین ایک بار پھر مصروف ہو چکے ہیں اور مولانا پھر ان کیلئے ہاتھ اٹھائے دعائوں میں مشغول۔ لگتا ہے مولانا نے نہیں بدلنا۔