لاہور(آئی این پی) عام انتخابات کی تیاریاں، کپتان کو انتخابی دنگل میں اترنے والوں کے نام فائنل کرنے کا مشورہ۔ذرائع کے مطابق تحریک انصاف کے اندر انتخابات کی تیاریوں کا حکم تو دے دیا گیا ہے لیکن امیدواروں کے نام فائنل نہ کرنے سے تحریک انصاف کے حلقوں میں بے چینی کی کیفیت پائی جارہی ہے مر کزی پارٹی رہنماوں نے کپتان کو مشورہ دیا ہے کہ وہ انتخابی امیدواروں کے نام فائنل کردیں کیونکہ اگر انتخابات سے دو
ماہ پہلے نام فائنل کیے گئے تو پارٹی کے اندر محاذ آرائی میں اضافہ ہوگاانتخابات کے قریب جاکر نام فائنل کرنے سے بہت سے لوگ ناراض بھی ہونگے ، اگر اب نام فائنل کردیئے جاتے ہیں تو جہاں پارٹی کو اچھی تیاری کا موقع ملے گا وہیں جو لوگ اب ناراض ہونگے انہیں منانا بھی آسان ہوگا رہنماوں کا مشورہ ہے کہ انتخابی امیدواروں کے نام فائنل کرکے انہیں حلقے میں کام کرنے دیا جائے۔دوسری جانب عمران خان کی نااہلی کے حوالے سے کیس ان دنوں سپریم کورٹ میں ہے اور اس حوالے سے کوئی بھی فیصلہ آسکتا ہے۔ عمران خان اگر نا اہل ہو جاتے ہیں تو ان کی جماعت تحریک انصاف شدید بحران کا شکار ہو جائے گی ، اس صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت نے ایک پلان ترتیب دے رکھا ہے جس سے متعلق عمران خان بھی اپنے ایک انٹرویو میں اظہار کر چکے ہیں، ذرائع کے مطابق یوں تو انتخابی آئینی ترمیم کے بعد عمران خان پارٹی کے سربراہ رہ سکتے ہیں مگر بڑے رہنمائوںکی ایک میٹنگ میں عمران خان اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ آئندہ کیونکہ الیکشن آنیوالے ہیں اور کیونکہ ن لیگ کی انتخابی آئینی ترمیم کی تحریک انصاف کھل کر مخالفت کر چکی ہے لہٰذا وہ نا اہلی کا فیصلہ آنے کے بعد پارٹی کے چیئرمین نہیں رہیں گے۔ پارٹی میں اس وقت تحریک انصاف کی قیادت کیلئے شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین دو بڑے نام ایسے ہیں
جو آگے آسکتے ہیں تاہم جہانگیر ترین کی بھی نا اہلی کے حوالے سے کیس سپریم کورٹ میں موجود ہے جس سے متعلق تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ان کے کیس کی بنیاد مضبوط نہیں جس پر وہ ممکنہ طور پر نا اہل ہو جائیں گے جس کے بعد شاہ محمود قریشی پارٹی میں ایسی شخصیت بچتے ہیں جن کے متعلق قیاس آرائیاں ہیں کہ عمران خان اور جہانگیر ترین کی نا اہلی کی صورت میں انہیں چیئرمین شپ کا عہدہ مل سکتا ہے ، واضح
رہے کہ شاہ محمود قریشی اس وقت وائس چیئرمین کے عہدے پر ہیں مگر پارٹی میں ایک دھڑا ایسا بھی ہے جو شاہ محمود قریشی کی بطور چیئرمین پارٹی سربراہ مخالفت کر سکتا ہے اور اس صورتحال میں پارٹی دھڑوں میں تقسیم ہونے کے خطرات بھی منڈلا رہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پارٹی کو عمران خان کی نا اہلی کی صورت میں دھڑے بندیوں اور ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کیلئے پارٹی قیادت ایک پلان تیار کر چکی ہے جس میں عمران
خان پیچھے رہ کر تمام فیصلے کرتے رہیں گے تاہم چیئرمین کیلئے پارٹی میں الیکشن کروا دیا جائے گا۔ اس بات کا اشارہ عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں دیا تھا۔ عمران خان نے نجی ٹی وی چینل کو اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ نا اہل ہونے کی صورت میں پارٹی میں الیکشن کروا کر نیا چیئرمین لایا جائے گا، ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں موروثی سیاست ہے جبکہ ہماری ایک جمہوری پارٹی ہے، میں خود پارٹی میں الیکشن کراؤں گا،
ہماری پارٹی کے ممبران نے جس شخص کو قابل سمجھا اسے ہی پارٹی چیئرمین بنایا جائے گا اور میں پیچھے بیٹھ کر پارٹی کو سپورٹ کروں گا اور اس کے علاوہ میں نمل یونیورسٹی چلاؤں گا، میرا خواب ہے کہ نمل یونیورسٹی کو پاکستان کی آکسفورڈ یونیورسٹی بناؤں، عمران خان کا کہنا تھا میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کیا ہے کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اپنے معاشرے کے لیے، کمزوروں کے لیے جتنی کوشش
کرے، انسان تو بس کوشش کر سکتا ہے، کامیابی تو اللہ دیتا ہے، میں ملک کے لیے اپنی کوشش کر رہا ہوں، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ اگر کسی وجہ سے بھی میری نااہلی کا فیصلہ ہوتا ہے، تو میں پھر بھی اپنی کوشش جاری رکھوں گا، میں ملک سے باہر نہیں جاؤں گا۔دوسری جانب اس وقت پارٹی سربراہ کے عہدے کیلئے پارٹی کے اہم رہنما بھی سرگرم ہو چکے ہیں اور لابنگ کا سلسلہ بھی شرو ع ہو چکا ہے۔