کراچی کے معروف صحافی و کالم نگار احسان کوہاٹی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں کہ ڈی جی رینجرز سندھ کے طور پر تعینات اس وقت کے میجر جنرل رضوان اختر سے صحافی اکثر اوقات ملنے ان کے آفس بھی چلے جاتے تھے جہاں وہ نہ صرف ان کو خوش آمدید کہتے بلکہ شہر کے حالات سے متعلق بھی معلومات کا تبادلہ کرتے تھے جس سے میڈیا اور رینجرز کے درمیان
فاصلوں میں بہت کمی واقع ہو چکی تھی۔ احسان کوہاٹی لکھتے ہیں کہ انہیں وہ منظر آج بھی یاد ہے کہ جب وہ جناح کورٹس میں ڈی جی رینجرز میجر جنرل رضوان اختر کے دفتر میں بیٹھے کسی معاملے پر بات کر رہا تھا کہ ان کا اے ڈی سی خلاف معمول دستک دے کر کمرے میں آگیا. یہ اس بات کی علامت تھی کہ کوئی غیر معمولی واقعہ رونما ہوا ہے. اے ڈی سی نے جرنیل کے کان میں جھک کر کچھ کہا، رضوان اختر نے میز پر پڑا ریموٹ اٹھایا، اور ٹیلی ویژن آن کر دیا، سیلانی نے گھوم کر ٹیلی ویژن کی اسکرین پر نظر ڈالی تو دل دھک کر کے رہ گیا، اسکرین پر ایم کیو ایم کے قائد کی لندن میں گرفتاری کی خبر بریکنگ نیوز کے طور پر چل رہی تھی۔ یہ دیکھتے ہی میں اٹھ کھڑا ہوا، جنرل نے میری طرف استفہامیہ نظروں سے دیکھا جیسے کہہ رہے ہوں کہاں جا رہے ہو؟’’سر!مجھے چلناچاہیے ابھی تھوڑی دیر میں شہر میں وہ کچھ ہوگا جس کا تصور محال ہے.‘‘’’بیٹھ جاؤ کچھ نہیں ہوگا‘‘ جنرل رضوان نے اطمینان سے کہا اور ٹیلی فون اٹھا کر آپریٹر سے کہنے لگے’’تھیبو (کراچی پولیس چیف عبدالقادر تھیبو) سے بات کرائیں.‘‘چند سیکنڈ میں پولیس چیف سے ڈی جی رینجرز کا رابطہ ہو گیا، جنرل نے ان سے کہا ’’اپنی فورس سڑکوں پر لے آئیں.‘‘اس ہدایت کے بعد دوسرا فون اپنے جی ایس کو کیا اور ہدایت کی کہ فورس سے
کہیں نائن زیرو کے اطراف اپنا گشت بڑھا دے، ایم کیو ایم کے جتنے لیڈرز ہیں ان کے گھروں پر پہنچ جائیں، اگر کوئی گڑ بڑ کرتا ہے تو اسے گھر ہی میں روک دیں. اتنا کہہ کر جنرل نے سیلانی سے کہا ’’کچھ نہیں ہوگا dont worry‘‘اور ایسا ہی ہوا ایم کیو ایم کے قائد کی لندن میں گرفتاری پر کراچی میں پٹاخہ بھی نہ چلا، یہ بدلے ہوئے کراچی کا پہلا دن تھا جب کراچی نے
’’نامعلو م دہشت گردوں‘‘ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا ۔احسان کوہاٹی لکھتے ہیں کہ ایک صحافی کی حیثیت سے مجھ سے ہی کی نہیں کراچی کے اکثر چیدہ چیدہ صحافیوں کی جنرل رضوان سے ملاقات رہا کرتی تھی، وہ ان سے feed back لیا کرتے تھے. فاٹا میں تعیناتی کے دوران حاصل ہونے والا انٹیلی جنس کا تجربہ کراچی میں ان کے خاصا کام آ رہا تھا،
انھوں نے اندھادھند محاصروں کے بجائے انٹیلی جنس اطلاعات پر چھاپوں کا آغاز کیا، مسلح جھتوں کے سہولت کاروں کو ٹارگٹ کیا، جہاں سے انہیں وسائل ملتے تھے ان جگہوں پر ان مسلح جھتوں کے لیے مسائل کھڑے کر دیے. جنرل کا انٹیلی جنس نظام اتنا مربوط تھا کہ سیاسی جماعتوں کے مسلح جتھوں کے کارندے ایک دوسرے کے لیے مشکوک ہو گئے. رضوان اختر کے دور میں
کراچی آپریشن میں لگ بھگ دس ہزار افراد گرفتار ہوئے، اس آپریشن میں انھیں پیپلز پارٹی کی حکومت کی رکاوٹیں بھی عبور کرنا پڑیں، وہ اپنی مرضی کا آپریشن چاہ رہی تھی، انھیں انسداد دہشت گردی کی عدالتیں بنانے میں بھی زیادہ دلچسپی نہیں تھی، رینجرز کے لیے وکلاء بھرتی کرنے میں بھی لیت و لعل سے کام لے رہی تھی، اس کا حل جنرل نے یہ نکالا کہ خود وکلاء کے
انٹرویوز کیے اور قائم علی شاہ کے پاس جاکر ان کی تنخواہیں جاری کروائیں تاکہ رینجرز جو مقدمات درج کرواتی ہے، ان پر سرعت سے سماعت ہو.کراچی آپریشن کے نتائج نے میجر جنرل رضوان اختر کی جانب آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو متوجہ کر دیا اور وہ میجر جنرل سےلیفٹیننٹ جنرل ہو کر ایک بہت بڑی ذمہ داری کے لیے چن لیے گئے. انہیں پاکستان کی
سکیورٹی کا نادیدہ حصار کھینچنے والے ادارے آئی ایس آئی کی کمان دے دی گئی. جنرل رضوان دو برس آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل رہے، ان دو برسوں میں آرمی پبلک اسکول کا سانحہ ہوا، طالبان کمانڈر کی ڈرون حملے میں ہلاکت ہوئی اور بھی بہت سے ایسے واقعات گنوائے جا سکتے ہیں جنھیں انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دے کر تنقید کی جاتی رہی ہے، لیکن انھی کے
اسی دور میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز نے چھاپہ مار کر غیر ملکی اسلحہ برآمد کرکے عملا کراچی کو آزاد کرایا، پٹھان کوٹ حملے میں بھارت کی بازی انھی پر الٹ کر خاموش کرا دیا، اور سب سے بڑھ کر کلبھوشن کو گرفتار کر کے بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بےنقاب کر دیا.ڈی جی آئی ایس آئی کی حیثیت سے دو برس گزارنے کے بعد ان کے حوالے
سے ایک اورچونکا دینے والی خبر میڈیا میں کی ہیڈلائن بن گئی، ان کا تبادلہ ڈی جی آئی ایس آئی کے دفتر سے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کر دیا گیا، اس عجیب فیصلے کی منطق کسی کو سمجھ نہیں آرہی تھی، جنرل رضوان کے سیاسی مخالفین خوش تھے کہ ڈان لیکس کے ’’بابے‘‘ سے جان چھوٹ گئی. اس حوالے سے سیلانی عسکری ذرائع سے پتہ چلا کہ جنرل رضوان اختر
کو بہاولپور اور پشاور کی کور کمان کرنے کا موقع مل رہا تھا لیکن انھوں نے خود یونیورسٹی کا انتخاب کیا اور وہ آئی ایس آئی سے این ڈی یو کے پریذیڈنٹ آفس میں آنے والے پہلے جنرل بن گئے. سیلانی کو جنرل رضوان اختر کے حوالے سے علم ہوا کہ ان کے اور نئی عسکری قیادت کے درمیان سیاسی قوتوں نے فاصلے پیدا کرنے کی بہتیری کوششیں کیں، اس حوالے سے آرمی چیف کے
خلاف سوشل میڈیا میں چلائی جانے والی مہم کو ہتھیار بنایا گیا،ان کے اور نئی عسکری قیادت کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہ ہو سکی. مگر فرنٹیئر فورس سے اپنے پیشہ وارانہ کیرئیر کا آغاز کرنے والا جرنیل اڑائی گئی اس دھول میں سے گزر کر کور کمانڈر کانفرنس میں بحیثیت کور کمانڈر شریک ہونے سے پیچھے ہٹ گیا. اس نے اپنا تعلق عسکری
اور جدید تعلیم سے جوڑ لیا اور ریٹائرمنٹ تک کے باقی ماندہ دن خاموشی سے گزارنے لگے، لیکن ان کی یہ خاموشی بمشکل سال بھر رہی، انہوں نے قبل از وقت ریٹائر منٹ کا فیصلہ کر لیا. ڈی جی آئی ایس آئی کے دفتر سے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں آمد کی طرح جنرل رضوان اختر کی رخصت کی خبر بھی چونکا دینے والی رہی، انہوں نے اچانک قبل از وقت ریٹائرمنٹ کا
اعلان کر کے سب کو حیران کر دیا. سیلانی نے اس فیصلے کا سبب جاننے کے لیے جنرل رضوان سے رابطے کی بہت کوشش کی مگر نمبر بند ملا، اور جب رابطہ ہوا تو انھوں نے سارے سوالوں کے جواب میں لکھا ’’ابھی اپنی پلاٹون جو درہ آدم خیل میں ہے، سے وردی اتار کر آرہا ہوں‘‘۔جنرل رضوان کا قبل از وقت استعفٰی آرمی چیف منظور کر چکے ہیں. اب وہ 35 برس
بعد وردی اتار کر جنرل ریٹائرڈ رضوان اختر ہو چکے ہیں. انہوں نے 1982ء سے 2017ء تک ایک عہد دیکھ رکھا ہے. کراچی میں ریشہ دوانیوں سے لے کر وطن عزیز کے خلاف ہونے والی سازشیں اور ان سازشوں کے ’’اپنے‘‘ اور غیروں کے کرداروں کے بارے میں ان سے زیادہ کون جانتا ہوگا. سیلانی کا خیال ہے کہ وہ یقینا ان 35 برسوں کی گواہیاں کتاب کی صورت میں سامنے لائیں گے.
کم از کم سیلانی سے تو کراچی میں ان کی یہی کمٹمنٹ تھی۔