اسلام آباد (این این آئی)سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ ادارے ایک دوسرے کا احترام نہیں کرینگے تو ملک آگے نہیں جا سکتا ٗ میڈیا ، سول سوسائٹی اور سب کو مل کر ایک سمت کا تعین کرنا ہوگا ٗاس وقت ایک نئے سیاسی، سماجی اور عمرانی معاہدے کی ضرور ت ہے ٗ روزمرہ کے تماشے کو ختم ہونا چاہیے ٗ ملک میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بڑا مباحثہ ہونا چاہیے ٗآئندہ انتخابات کے نتائج گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے عکاس ہونے چاہئیں، انتخاب سے پہلے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ پر اتفاق ہونا چاہیے،
ٗٹرتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن پر بات چیت کرنے کو تیار ہوں ٗ نیب کی تحقیقات کے دوران سپریم کورٹ کا جج نگراں بیٹھا ہوگا تو اپیل کہاں کریں گے۔ پیر کو پنجاب ہاؤس میں صحافیوں سے ملاقات کے دوران گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہاکہ 70 سال میں ایک بھی وزیراعظم کی مدت پوری نہیں ہوئی ٗٹھوکریں کھائیں لیکن ہم پاکستان کی سمت کا تعین نہیں کرسکے ٗمیڈیا، سول سوسائٹی اور سیاستدانوں کو مل کر جوابات تلاش کرنے چاہئیں۔نواز شریف نے کہاکہ میرے مقاصد اب ذاتی نہیں بلکہ ملک اور قوم کیلئے ہیں اور وزارت عظمیٰ سے بالاتر ہو کر اس ملک کی ایک ادنیٰ سی خدمت کرنا چاہتا ہوں اور آپ لوگوں سے بھی گزارش کروں گا کہ مجھے بحال کرانے کیلئے نہیں بلکہ ملک کی بہتری کیلئے ہمیں اکٹھاہونا ہوگا۔نواز شریف نے کہا کہ اپنے لئے نہیں بلکہ ملک کیلئے کہہ رہا ہوں کہ عوام کی حکمرانی اور مینڈیٹ کی عزت ہونی چاہیے ٗچار سال جو اقتدار میں گزارے وہ میں ہی جانتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ادارے ایک دوسرے کا احترام نہیں کرینگے تو ملک آگے نہیں جاسکتا، میڈیا ، سول سوسائٹی اور سب کو مل کر ایک سمت کا تعین کرنا ہوگا ورنہ ملک نہیں چل سکتا۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ مجھے بڑے لوگوں نے مشورہ دیا کہ جے آئی ٹی کے سامنے نہیں جانا چاہیے لیکن میں یہ تاثر نہیں دینا چاہتا تھا کہ ہم کسی انکوائری سے بھاگ رہے ہیں۔میاں محمد نواز شریف نے کہاکہ قومی خزانے کی امانت میں کوئی خیانت نہیں کی بلکہ قانون اور آئین کی پاسداری کی ہے ٗ
میں حالات کی خرابی نہیں بلکہ تصحیح چاہتا ہوں۔سابق وزیراعظم نے تجویز دی کہ ملک میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر ایک بڑا مباحثہ ہونا چاہیے، آئندہ انتخابات کے نتائج گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کی عکاس ہونے چاہئیں، اگلے انتخاب سے پہلے گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ پر اتفاق ہونا چاہیے، میں ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن پر بات چیت کرنے کو تیار ہوں۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ایک نئے سیاسی، سماجی اور عمرانی معاہدے کی ضرور ت ہے،
روزمرہ کے تماشے کو ختم ہونا چاہیے۔ایک سوال کے جواب میں نوازشریف نے کہاکہ شہبازشریف کو پنجاب میں برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا ہے اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی ہی رہیں گے۔ نجی ٹی وی کے مطابق نواز شریف نے کہاکہ پاناما کیس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں واٹس ایپ کے ذریعے وہ لوگ لائے گئے جنہیں لانا مقصود تھا ٗ انہوں نے کہا کہ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ انکوائری میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے افراد کو شامل کیا جائے جبکہ اس طرح کی رپورٹس کی کیا حیثیت ہوتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ جج صاحبان نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ نواز شریف پر کرپشن اور اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام نہیں ٗپاناما کیس میں ایسی کوئی چیز نہیں ملی جس میں مجھے نااہل کیا جاتا ٗججز نے کیس کی سماعت کے دوران گاڈ فادر اور سسیلین مافیا کہا ٗایک جج نے یہاں تک کہا کہ وزیر اعظم کو پتہ ہونا چاہیے کہ اڈیالہ جیل میں کافی جگہ ہے ٗ ایسے ریمارکس پر افسوس ہوا جبکہ ججز کو ایسے جملوں سے گریز کرنا چاہیے۔
سابق وزیر اعظم نے کہا کہ نیب کا قانون سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سیاستدانوں بالخصوص مجھے نشانہ بنانے کیلئے بنایا ٗ سپریم کورٹ نے نیب کو چھ ہفتے میں ریفرنس دائر کرنے کا کہا گیا ٗممکن ہے جے آئی ٹی اس عرصے میں کچھ اور تلاش کرے۔انہوں نے کہا کہ نیب کی تحقیقات کے دوران سپریم کورٹ کا جج نگراں بیٹھا ہوگا تو کل کو اپیل کہاں کریں گے، اس طرح سے ملک چل نہیں سکتا جس طرح چلانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ ایسا چلتا رہا تو ملک بیٹھ جائے گا۔
انہوں نے کہاکہ کروڑوں لوگ مینڈیٹ دیں اور پانچ نوبل افراد چلتا کر دیں تو یہ مناسب نہیں ٗعوامی مینڈیٹ کا مجھے بھی احترام ہے ٗدوسروں کو بھی کرنا چاہیے ۔ نواز شریف نے کہاکہ بدھ کو اپنے گھر جارہا ہوں احتجاج نہیں کر رہا، میں بحالی کیلئے جی ٹی روڈ سے نہیں جا رہا، مقصد بڑا ہے اور ملک و قوم کے لیے رسک لینا پڑتا ہے،جس روڈ میپ کی بات کی ہے کیا وہ تصادم ہے؟
۔ای سی ایل میں نام ڈالنے سے متعلق درخواست مسترد ہونے پر سابق وزیر اعظم نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ پرویزمشرف کی طرح بھاگنے والا نہیں ٗکیا ایسے جج موجود ہیں جو مشرف جیسے آمر کا احتساب کریں؟ جیسے بھی حالات ہوں مقابلہ کروں گا۔ انہوں نے کہا کہ لگتا ہے میری نا اہلی کی فیصلہ ہو چکا تھا صرف جواز ڈھونڈا گیا ٗکچھ نہیں ملاتو بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر مجھے فارغ کردیاگیا ٗنکالنا تھا تو کسی ایسی چیز پر نکالتے جس کی سمجھ بھی آتی؟
سابق وزیراعظم نے کہا کہ اگرمیں نے تنخواہ نہیں لی توظاہر کرنے کی کیا ’’تک‘‘ بنتی تھی ٗایک چیز میرے جیب میں ہی نہیں آئی تو اسے ظاہر کیسے کرتا،میرا ذہن اس منطق کو نہیں مانتا، مجھے عمران خان اور پی ٹی آئی کے خلاف بات کرنے کی ضرورت نہیں ، مجھے بحال کرنے کے لیے نہیں ناانصافی پر کھڑا ہوناہوگا۔