کراچی(این این آئی) شہر قائد سمیت سندھ بھر میں پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہونے کا ہولناک انکشاف ہوا ہے۔ہفتہ کو سندھ ہائی کورٹ میں واٹرکمیشن کی سماعت ہوئی جس میں کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں کو فراہم کیے جانے والے پینے کے پانی میں انسانی فضلہ شامل ہونے کا لرزہ خیز انکشاف ہوا۔ شہر قائد میں پانی کے 33 فیصد نمونوں میں سیوریج کا پانی شامل ہے اور 90 فیصد پانی پینے کیلیے نقصان دہ ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر قائم عدالتی واٹر کمیشن کی سماعت میں ٹاسک فورس کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق کراچی میں کسی بھی جگہ صاف پانی نہیں مل رہا اور پوری پوری رات کلورین ملائے بغیر پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ماہر ماحولیات ڈاکٹر مرتضی نے بتایا کہ فلٹریشن پانی کے ساتھ گندا پانی بھی مکس ہورہا ہے۔ ڈپٹی ایم ڈی واٹر بورڈ نے اعتراف کیا کہ کراچی میں 19 مقامات پر پینے کے پانی میں سیوریج کی لائنیں مل گئی ہیں جب کہ عمارتوں اور گھروں کے زمینی پانی کے ٹینک کئی کئی سال تک صاف نہیں ہوتے۔ جسٹس اقبال کلہوڑو نے استفسار کیا کہ لوگ لائن کے پانی سے وضو کرتے ہیں تو کیا یہ گندا پانی بھی وضو کیلئے استعمال کیا جائے۔واٹر کمیشن نے شہریوں کو گندا پانی فراہم کرنے پر شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایسے فلٹریشن پلانٹس کا کیا فائدہ جب لوگوں کو صاف پانی نہ ملے۔ ٹاسک فورس کی رپورٹ میں کہا گیا کہ سندھ کے 14 اضلاع کے 71 اسپتالوں میں بھی پانی کے نمونے ٹیسٹ کییگئے اور 88 فیصد نمونے مضر صحت ثابت ہوئے۔ میرپورخاص میں 28 فیصد، ٹنڈو الہ یار میں 23، بدین میں 33، جامشورو میں 36، ٹنڈو محمد خان میں 30، حیدر آباد میں 42، لاڑکانہ میں 60 فیصد پانی کے نمونوں میں انسانی فضلہ پایا گیا۔ سب سے کم انسانی فضلے کے اجزا تھرپارکر میں پائے گئے۔اس موقع پر واٹر ٹینکر ایسوسی ایشن نے کہا کہ کراچی میں ڈیڑھ سو سے زائد غیر قانونی ہائیڈرنٹس ہیں۔
عدالتی کمیشن نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے پوچھا کہ کیا آپ غیر قانونی ہائیڈرنٹس چلا رہے ہیں۔ ایم ڈی واٹر بورڈ نے اعتراف کیا کہ غیر قانونی کنکشن دینے میں ہمارا عملہ بھی ملوث ہے۔ واٹر کمیشن نے سماعت 29 جولائی تک ملتوی کردی۔