اسلام آباد (این این آئی)قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی غیر موجودگی میں مالی سال کے 4750 ارب سے زائد حجم کے وفاقی بجٹ کی منظوری دیدی ہے ٗ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 2010ء کا 50 فیصد ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم کرکے اس پر 10 فیصد اضافہ کر دیا گیا۔ منگل کو وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے بجٹ کی تجاویز کو قانونی تحفظ دینے کیلئے مالی بل 2017ء کو زیر غور لانے کی تحریک ایوان میں پیش کی ٗ
تحریک کی منظوری کے بعد سپیکر نے بل کی مختلف شقوں کی یک بعد دیگرے منظوری کا عمل شروع کیا ٗبل کی بعض شقوں پر حکومت کی طرف سے وفاقی وزیر قانون زاہد حامد نے ترامیم پیش کیں جو قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد بل میں شامل کرلی گئیں۔ قبل ازیں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے قومی اسمبلی میں مختلف وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز کے 34 کھرب 50 ارب 93 کروڑ 55 لاکھ 3 ہزار سے زائد کے 150 مطالبات زر ایوان میں پیش کئے جن پر اپوزیشن کی طرف سے کٹوتی کی کوئی تحریک پیش نہیں کی گئی۔ اس طرح قومی اسمبلی نے تمام مطالبات زر کی منظوری دے دی۔ سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کے لئے ریکارڈ 1001 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں ٗ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 2010ء کا 50 فیصد ایڈہاک ریلیف بنیادی تنخواہ میں ضم کرکے اس پر 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پنشنروں کی پنشن میں دس فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ پاک فوج کے جوانوں و افسران کی تنخواہوں میں بنیادی تنخواہ میں 2010ء کا ایڈہاک ریلیف ضم کرتے ہوئے 10 فیصد اضافہ کیا گیا۔ مزدور کی کم سے کم اجرت 15400 روپے کردی گئی ہے۔ زرعی مشینری پر ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے۔ زرعی ٹیوب ویلوں پر بجلی پر دی جانے والی سبسڈی برقرار رکھی گئی ہے ٗدفاعی بجٹ کے لئے 920 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔ آئندہ مالی سال کے لئے کل اخراجات کا تخمینہ 4753 ارب روپے ہے
جوکہ رواں مالی سال سے 11.7 فیصد زیادہ ہے۔ مجموعی مالی محصولات کا تخمینہ 5310 ارب روپے لگایا گیا ہے جس میں ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 4013 ارب روپے ہے۔ رواں مالی سال کے مقابلے میں کل آمدنی سے صوبائی حکومتوں کا حصہ 2384 ارب روپے بنتا ہے جوکہ رواں مالی سال کے مقابلے میں 12.4 فیصد زیادہ ہے۔ بجٹ میں اسلامی بنکاری کی ترغیب کے لئے بھی کئی اقدامات تجویز کئے گئے ہیں۔ وزیراعظم کی یوتھ لون سکیم کے تحت لی گئی گاڑیوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس پر چھوٹ دی گئی ہے۔ روزمرہ اشیاء ضروریہ پر ودہولڈنگ کی شرح میں کمی کی گئی ہے۔ گوشوارے جمع نہ کرانے والوں کو اپیل کا حق دیا گیا ہے۔ انشورنس کی انتہائی حد میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ منافع پر ٹیکس کی شرح کو بھی معقول بنایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں بلڈرز اور ڈویلپرز پر ٹیکس عائد کئے گئے ہیں۔ نان فائلرز کے لئے زیادہ شرح سے ودہولڈنگ ٹیکس نافذ کرنے کی پالیسی کے حوصلہ افزا نتائج نکلے ہیں۔
اس کے علاوہ ایل ای ڈی لائٹس پر ڈیوٹی کی شرح کم کی گئی ہے۔ زرعی آلات پر ڈیوٹی میں بھی کمی کی گئی ہے ٗ ملٹی میڈیا پراجیکٹرز پر بھی سیلز ٹیکس کی شرح میں کمی کی گئی ہے ٗ سگریٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔ بجٹ میں زرعی شعبہ اور پولٹری فارمنگ سیکٹر میں ریلیف دیا گیا ہے۔ فش فیڈ کی درآمد پر عائد ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے۔ شترمرغ فارمنگ کی حوصلہ افزائی کے لئے شترمرغوں کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ دی گئی ہے۔ اس کے علاوہ صنعتی شعبہ کے لئے بھی کئی ریلیف کے اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ ریگولیٹری اور اضافی ڈیوٹیوں پر نظرثانی کی گئی ہے۔ شہداء کے خاندانوں کے لئے قومی بچت کے تحت نئی فلاحی سکیم متعارف کرائی گئی ہے۔ پاکستان بیت المال اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے فنڈز میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے۔ سمندر پار پاکستانیوں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے سی ڈی اے کی جانب سے علیحدہ سیکٹر کا اعلان بھی بجٹ میں شامل ہے۔
اس کے علاوہ بجٹ میں آئندہ پانچ سال کا وژن بھی دیا گیا ہے۔ اجلاس کے دور ان مختلف وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز کے 34 کھرب 50 ارب 93 کروڑ 55 لاکھ سے زائد کے 150 مطالبات زر کی منظوری دیدی گئی جبکہ اپوزیشن کی غیر موجودگی میں 6 وزارتوں کے مطالبات زر پر کٹوتی کی 1560 سے زائد تحاریک مسترد کردی گئیں۔ وفاقی وزیر خزانہ محمد اسحاق ڈار نے یکے بعد دیگرے ان مختلف وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کے مطالبات زر قومی اسمبلی میں پیش کئے جن پر اپوزیشن کی طرف سے کٹوتی کی تحاریک پیش نہیں کی گئی تھیں۔ بعد ازاں انہوں نے اپوزیشن کی جانب سے جن وزارتوں پر کٹوتی کی تحریکیں پیش کی گئی تھیں ان کی ایوان سے منظوری لی۔ کابینہ ڈویژن کے 24 مطالبات زر پر کٹوتی کی 407 تحریکیں اپوزیشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسترد کردی گئیں۔
وزارت خزانہ کے 27 مطالبات زر پر کٹوتی کی 288 تحریکیں اپوزیشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسترد کردی گئیں۔ خارجہ امور کے چار مطالبات زر پر اپوزیشن کی جانب سے 173 کٹوتی کی تحریکیں جمع کرائی گئی تھیں تاہم ان کی عدم موجودگی میں یہ تحریکیں مسترد کردی گئیں۔ وزارت داخلہ کے 11 مطالبات زر پر 205 کٹوتی کی تحریکیں جمع کرائی گئی تھیں جوکہ اپوزیشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے مسترد کردی گئیں۔ وزارت قومی خوراک کے دو مطالبات زر پر کٹوتی کی 147 تحاریک اپوزیشن کی عدم موجودگی کی وجہ سے ڈراپ کردی گئیں جبکہ یہ مطالبات زر منظور کرلئے گئے۔
وزارت پانی و بجلی کے دو مطالبات زر پر اپوزیشن کی جانب سے 341 کٹوتی کی تحریکیں پیش کی گئی تھیں جو اپوزیشن کی غیر موجودگی کی وجہ سے ڈراپ کرتے ہوئے یہ مطالبات زر منظور کرلئے گئے۔بعد ازاں قومی اسمبلی کااجلاس بدھ تک ملتوی کر دیا گیا ۔