اسلام آباد(آئی این پی)پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے موجودہ بجٹ کو غریب دشمن بجٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کوئی ٹارگٹ پورا نہیں کر سکی‘ حکومت نے کئی منصوبوں کے اعلانات تو کر دئیے لیکن ابھی تک انہیں شروع بھی نہیں کیا جا سکا ‘ سرمایہ کاری رک گئی ہے۔ جمعہ کو میڈیا سے گفتگو میں گروتھ ریٹ بڑھانے کا ٹارگٹ حکومت حاصل نہیں کر سکی ‘ معاشی صورتحال انتہائی تشویش ناک ہے۔ مغربی سرحدیں بھی غیر محفوظ ہیں ‘ ایران بھی پاکستان سے ناراض ہے۔
کسانوں کے ساتھ حکومت نے بہت ناانصافی کی لوگ سمجھدار ہو گئے ہیں ۔ بجٹ کاغذوں کی ہیرا پھیری ہے۔دریں اثناء پاکستان پیپلز پارٹی نے آئندہ مالی سال کا وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا ‘ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ بجٹ میں عوام کو خواب بھی نہیں دکھائے گئے ‘ بجٹ میں غیر ضروری اخراجات کی بھرمار ہے۔ جمعہ کو پاکستان پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کردہ مالیاتی بجٹ 2017-18ء کو مسترد کر دیا ۔ چیئرمین پیپلز پارٹی نے پارٹی رہنماؤں اور اراکین سینٹ و قومی اسمبلی کو اس کی خلاف آواز اٹھانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں عوام کو خواب بھی نہیں دکھائے گئے۔ بجٹ میں غیر ضروری اخراجات کی بھی بھرمار ہے۔ تحریک انصاف کے نائب صدراور رکن قومی اسمبلی اسد عمر نے کہا ہے کہ موجودہ حکومت نے 3 سالوں میں ریکارڈ قرضے لئے ‘ برآمدات 30 ڈالر سے کم ہو کر اس سال25 ارب ڈالر رہ گئی ہیں ‘ ملک بیرونی قرضوں کے اندر جکڑا جا چکا ہے ‘ گزشتہ 30 سال میں سب سے کم سرمایہ کاری اس سال ریکارڈ کی گئی ۔ چوری کی پیسٹری چلی گئی بیکری آ گئی ہے۔ وہ جمعہ کو بجٹ اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ اس موقع پر شیریں مزاری ‘ شفقت محمود سمیت دیگر بھی موجود تھے۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ 60 سالوں میں جتنا قرضہ لیا موجودہ حکومت نے 3 سالوں میں اتنا بوجھ ڈال دیا۔ بیرونی قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہو رہاہے۔ پاکستان کی درآمدات بڑھ رہی ہیں جبکہ برآمدات کم ہو رہی ہیں۔ رواں سال برآمدات 30 ارب ڈالر سے کم ہو کر 25 ارب ڈالر رہ گئی ہیں۔ ملک اندرونی اور بیرونی قرضوں کے اندر دھنستا جا رہا ہے۔ گزشتہ 30سالوں میں سب سے کم سرمایہ کاری ان 3 سالوں کے درمیان ہوئی ہے اگر سرمایہ کار آصف علی زردار ی کے دور میں چوری کی وجہ سے پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرتے تھے تو آج حالات اس سے بھی زیادہ خراب ہیں ۔ سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھنے کی بجائے مزید کم ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے پاکستان میں مزید سرمایہ کاری نہیں آ رہی۔ شیخ رشید درست کہتے ہیں کہ چوری کی پیسٹری چلی گئی چوری کی بیکری آ گئی ہے۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ میرے پاس بہترین اور تجربہ کار ٹیم ہے۔ اگر یہ بہترین ٹیم ہے تو ہرطرف سے ملک کو نقصان کیوں پہنچ رہاہے۔ خواجہ سعد رفیق جلسے جلوسوں میں اپوزیشن پر تنقید کے لئے ہر وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں۔
انہوں نیریلوے خسارے میں تو کوئی کمی نہیں لائی البتہ ان 3 سالوں میں ریلوے حادثات کا ایک نیا ریکارڈ قائم کیاہے۔ غریبوں پر گزشتہ 3 سالوں میں مزید ٹیکس لگائے گئے امیروں کیلئے 3 ایمنسٹی سکیمز لائی گئیں۔ انہوں نے کہاکہ کسان اتحاد کے کارکنوں کے ساتھ حکومت کی طرف سے کئے گئے سلوک کی سخت مذمت کرتے ہیں۔ سڑکوں پر اپنے حق کیلئے آنے والوں پر ظلم و ستم اور بربریت کی گئی۔ آج کے سلوک نے ثابت کر دیا کہ موجودہ حکومت کسان دشمن ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر بابر اعوان نے مالی سال 2017-18ء کے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ وزیر خزانہ کی طرف سے پیش کیا گیا بجٹ پاکستانی عوام کے لئے آئی ایم ایف کی طرف سے موت کا پیغام ہے یہ بجٹ نواز شریف اور ان کے خاندان کا بجٹ ہے‘ دنیا بھر میں مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کیاجاتا ہے ‘ تنخواہوں میں 30 فیصد سے لے کر 300 فیصد تک اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ دونوں ایوانوں میں فرینڈلی اپوزیشن ہو رہی ہے ‘ 6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے نعرے لگانے والے 4 سال میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہیں کر سکے۔
وہ جمعہ کو بجٹ اجلاس کے موقع پر پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’سمدھی صاحب‘‘ نے جو بجٹ پیش کیا وہ آئی ایم ایف کی طرف سے پاکستانی عوام کے لئے سزائے موت کا پیغام ہے۔ ساری دنیا میں اصول ہے کہ تنخواہوں میں اضافے کو ایک تولے سونے کے ساتھ منسلک کیا جاتا ہے ۔ اسٹیٹ بنک کے پاس جتنا سونا ہوتا ہے اتنی مالیت کے نوٹ چھاپے جاتے ہیں ۔ مہنگائی میں گزشتہ 3 سال میں 300 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے سانس کے علاوہ ہر چیزپر ٹیکس لگا رکھا ہے۔ شہر اقتدار میں حق مانگنے کے لئے آنے والے غریب کسانوں پر لاٹھی چارج ‘شیلنگ کی جاتی ہے جبکہ سجن جندال کو بغیر ویزا آنے کی اجازت ہے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ 6 ماہ میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ نہ ہوا تو میرا نام بدل دینا۔ آج 4 سال گزرنے کے بعد بھی لوڈ شیڈنگ کی صورتحال وہی ہے ۔ گردشی قرضے دوبارہ 480 ارب کو پہنچ گئے ہیں لیکن بجلی پوری نہیں ہو رہی۔ انہوں نے کہا کہ وزارت داخلہ کے نائب قاصد کے ڈگری یافتہ بیٹے کے لئے نوکری نہیں باپ کو اپنی لاش بیٹے کے کاندھوں پر رکھ کر بیٹے کے لئے اس نام نہاد جمہوریت میں نوکری حاصل کرنا پڑی۔
گزشتہ دس دنوں میں مہنگے ترین قرضے لئے گئے۔ حکومت کا موجودہ بجٹ چیخ چیخ کر کہہ رہاہے کہ یہ بجٹ تمہارا ہے تم ہو قرض خواں اس کے‘ جس حساب سے مہنگائی اوپر جا رہی ہے اس حساب سے تنخواہوں میں اضافہ ہونا چاہیے تھا۔ دونوں ایوانوں میں فرینڈلی اپوزیشن ہورہی ہے۔ اپوزیشن کچھ کرنے کے قابل ہوتی تو آج یہ کچھ نہ ہوتا۔ تنخواہوں میں کم سے کم 30 فیصد سے لے کر 300 فیصد تک اضافہ ہونا چاہیے ۔ قرضے لے کر کھائے حکمرانوں نے ادا غریب لوگوں کو کرنا پڑیں گے۔ یہ بجٹ حکومت کا آخری نہیں بلکہ نواز لیگ کا آخری بجٹ ہو گا۔ حکومت دوبارہ ان کو ووٹ دینے کی غلطی نہیں کرے گی سینیٹر بابر اعوان نے کہا ہے کہ موجودہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا‘ ان کا انڈا بھی بک رہا ہے ان کی مرغی مہنگی ہے ان کی جنس باہر جا رہی ہے ‘ یہ بجٹ نواز شریف اور ان کے خاندان کا بجٹ ہے۔ بنکوں سے مہنگے ترین شرح سود پر قرضے لے کر عوام پر بوجھ ڈالا جارہاہے۔ بھارت کے مقابلے میں دفاعی بجٹ میں کچھ اضافہ نہیں کیا گیا۔ بھارت صرف سپیس پروگرام پر جتنا بجٹ خرچ کررہا ہے ہمارا اتنا دفاعی بجٹ ہے۔ نام بدلنے کا نعرہ لگانیوالے عوام کو بتائیں کہ ان کاکیا نام رکھا جائے۔
بیرون ممالک بسنے والے اوورسیزپاکستانی برملا کہتے ہیں کہ پاکستان پیسے نہ لے جانانواز شریف کے بیٹے لے جائیں گے۔امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق نے وفاقی بجٹ کو مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ موجودہ حکومت اپنے آخری بجٹ میں بھی عوام کو کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔ عوام کو توقعات تھیں کہ حکومت جاتے جاتے ان کے لیے خصوصی ریلیف کا سامان کرے گی اور پانی ، بجلی ، گیس ، پٹرول کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کرے گی، لیکن اس بجٹ سے عوام کو مایوسی ہوئی ہے ۔ بجٹ کا خسارہ ریکارڈ سطح پر پہنچ گیاہے ۔ تعلیم اور صحت میں کوئی انقلابی قدم نہیں اٹھایا گیا ۔ الٹا ادویات مہنگی کر دی گئی ہیں ۔ بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے ، غربت اور مہنگائی میں کمی اور تعلیم ، صحت اور روزگار کے شعبوں میں بہتری جیسے اہم مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیاہے ۔
بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور سودی نظام سے نجات کے لیے کوئی واضح پالیسی نہیں دی گئی ۔ کشکول توڑنے کے دعوے کرنے والوں نے مزید قرض نہ لینے کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی ۔ انہوں نے کہاکہ کسانوں کو کھادسستی کرنے کا لولی پاپ دے کر زرعی مداخل بیج ، زرعی ادویات اور مشینری اور خاص طور پر پانی کی فراہمی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیاگیاہے ۔ صنعتی شعبہ میں ترقی کا کوئی ہدف طے کیا گیااور نہ اس کو حاصل کرنے کی کوئی منصوبہ بندی سامنے آئی ہے ۔