اسلا م آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ایک صاحب کسی جگہ لپ سٹک کے خلاف تقریر کر رہے تھے‘ ،ان کا کہنا تھا لپ سٹک استعمال کرنے والی عورتیں جہنمی ہوتی ہیں اور انہیں حشر کے دن اس بے ہودگی کاحساب دینا ہو گا وغیرہ وغیرہ‘ تقریر سننےوالوں میں سے کسی نے ہاتھاٹھا کر عرض کیا ’’حضور‘ آپ کی تو اپنی بیگم لپ سٹک استعمال کرتی ہے‘ وہ صاحب کھسیانے ہو گئے اور بولے لیکن میری بیوی کو لپسٹک جچتی بھی تو بہت ہے۔
ہم من حیث القوم ایسے ہی لوگ ہیں‘ ہر وہ کام جو دوسرے کریں ہم اسےکفر سمجھتے ہیں اور وہ ہی کام جب ہم کریں تو ہم یہ کہہ کر خود کو اور دوسروں کو مطمئن کر لیتے ہیں کہ ہمیں تو یہ بہت جچتا ہے‘ میں اپنی بات کی مزید وضاحت کیلئے آپ کو ماضی کے چند واقعات کی طرف لے جانا چاہتا ہوں‘ آپ کو یاد ہو گا 17جون 2014ء کو سانحہ ماڈل ٹائون پیش آیا تھا‘ چودہ لوگ اس دن پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے،اس وقت پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی دونوں نےاس واقعے کو فاشزم‘ بربریت او رپولیس گردی کہا تھا جبکہ پنجاب حکومت اور وفاقی حکومت نےاسے حکومت کی رٹ قرار دیا تھا‘ 31 اکتوبر 2016ء کو کے پی کے کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک لاک ڈائون کیلئے اسلام آباد آرہے تھے‘ موٹر وے پر ان پر بھاری شیلنگ کی گئی یہاں تک کہ وہ پسپا ہونے پر مجبور ہو گئے‘ پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی نےاس واقعے کو بھی پولیس گردی‘ فاشزم اور بربریت قرار دیا جبکہ پنجاب اور وفاقی حکومت اسے رٹ آف دی گورنمنٹ کہتی رہی‘ وزیر داخلہ چودھری نثار نے اس وقت فرمایا تھا کل 14مئی کو کراچی میں پاک سرمین پارٹی کا ملین مارچ تھا‘ کل پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے اس ملین مارچ کے ساتھ وہی سلوک کیا جس کی یہ لوگ سانحہ ماڈل ٹائون اور لاک ڈائون کےدوران مذمت کرتے رہے تھے جبکہ وہ وزیر داخلہ چودھری نثار جنہوں نے ماڈل ٹائون اور موٹروے کے واقعات کورٹ آف دی گورنمنٹ کہا تھا ۔انہوں نے کراچی میں پولیس ایکشن کو قرار دے دیا‘ آپ دیکھئے‘ ہماری سیاسی جماعتوں کو کس طرح اپنی اپنی لپ سٹک جچ رہی ہے اور دوسروں کی لپ سٹک بربریت‘ فاشزم اور پولیس گردی محسوس ہورہی ہے‘ یہ سیاسی منافقت کب ختم ہو گئی‘ سیاست سے یہ ڈبل سٹنڈرڈ کیسے ختم ہوں گےجبکہ پاک سرزمین پارٹی نے 48 گھنٹوں میں نئے لائحہ عمل کا اعلان کرنا ہے ،24 گھنٹے گزر چکے ہیں‘ 24باقی ہیں‘ یہ لوگ ان 24 گھنٹوں میں کیا ایسا نیا کر لیں گے جو یہ پہلے نہیں کر سکے۔