جمعرات‬‮ ، 14 اگست‬‮ 2025 

’’بس اللہ اکبر کا نعرہ اور پھر بٹن دبا دینا‘‘خودکش حملے کیلئے کیسے مجبور کیا گیا’’خلافت کی سرزمین جانیوالی ‘‘نورین لغاری کے ہولناک انکشافات

datetime 9  مئی‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سوشل میڈیا کے ذریعے دہشتگرد تنظیموں کی خلافت بارے مہم سے متاثر ہوئی، دہشتگردوں نے رابطہ کیا تو انہیں ہجرت کیلئے مدد فراہم کرنے کی درخواست کی، ہجرت کے بجائے لاہور چرچ میں خود کش حملے کیلئے استعمال کئے جانے پر اعتراض کیا مگر بری طرح پھنس چکی تھی وہاں سے نکل نہیں سکی۔

حساس اداروں کے آپریشن کے دوران لاہور کے گھر میں دہشتگردوں سے بازیاب ہونے والی حیدر آباد کی میڈیکل سٹوڈنٹ نورین لغاری کا نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انکشاف۔ تفصیلات کے مطابق نجی ٹی وی کو انٹرویو میں حیدرآباد سے خلافت کی سرزمین پر ہجرت کیلئے 10فروری 2017کو نکلنے والی میڈیکل سٹوڈنٹ نورین لغاری نے انکشاف کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے دہشتگرد تنظیموں کے پیجز پر دی جانے والی معلومات اور پروپیگنڈے نے مجھے خلافت بارے متاثر کیا اور میں نے خلافت کی سرزمین ہجرت کرنے کیلئے عزم کر رکھا تھا اسی دوران دہشتگرد تنظیم والوں نے پیغامات بھجوائے جس پر میں نے انہیں ہجرت میں مدد فراہم کرنے کی اپیل کی انہوں نے مجھے لاہور بلایا جس پر میں حیدر آباد سے لاہور چلی گئی جہاں انہوں نے مجھے رسیو کیا اور میری ذہن سازی کرتے رہے ۔ نورین کے مطابق دہشتگرد اسے قرآن و حدیث کی غلط تشریح کے ذریعے پر تشدد کارروائیوںکیلئے تیار کرنا چاہ رہے تھے ۔ انہوں نے مجھے جب ہجرت کے بجائے لاہور کے چرچ میں خود کش حملے کیلئے کہا تو میں نے اس پر اعتراض کیا کہ میں اس کام کے لئے نہیں آئی ۔ دہشتگردوں نے نورین کو ’’امیر کی اطاعت‘‘سے متعلق احکامات سنائے کہ امیر جیسا حکم دے وہ کرنا پڑتا ہے۔ نورین لغاری نے ہولناک انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ

دہشتگردوں نے اسے خودکش جیکٹ کے استعمال سے متعلق بریفنگ بھی دی اور کہا کہ چرچ میں جا کر اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر بٹن دبا دینا ہے۔ نورین لغاری کا کہنا تھا کہ میں وہاں سے فرار کا سوچنے لگ گئی تھی مگر دہشتگردوں نے مجھے اس طرح ٹریپ کیا ہوا تھا کہ وہاں سے نکلنے کا موقع نہیں مل رہا تھا ۔ اسی دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ریڈ کی اور میں ان کے ریڈ کے نتیجے میں بازیاب ہو سکی۔

اس موقع پر نورین لغاری کے والد بھی موجود تھے جن کا کہنا تھا کہ والدین بچوں کے بستر پر سونے تک تو ان کی نگرانی کا کام کر سکتے ہیں مگر اس کے بعد بچے موبائل، ٹیب یا دیگر گیجٹ کے ذریعے کیا کر رہے ہیں اس پر نگرانی رکھنا ناممکن ہے۔ نورین کے والدکا کہنا تھا کہ میری اور میرے اہل خانہ کیلئے نورین کا چلے جانا نہایت اذیت کا باعث تھا

جس نے مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ شاید میری تربیت میں کوئی کمی رہ گئی جس کی وجہ سے میری بیٹی نے ایسا اقدام اٹھایا۔ نورین لغاری اور اس کے والد نے اس موقع پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں ان کی شکر گزار ہوں کہ ان کی وجہ سے میں بھٹکی ہوئی راستے پر آگئی ہوں۔

موضوعات:



کالم



شیلا کے ساتھ دو گھنٹے


شیلا سوئٹزر لینڈ میں جرمنی کے بارڈرپر میس پراچ(Maisprach)میں…

بابا جی سرکار کا بیٹا

حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…