اسلام آباد(آئی این پی )سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں عبد الولی خان یونیورسٹی مردان کے طالبعلم مشال خان کے قتل کی بریفنگ کے دوران تمام ارکان افسردہ ہو گئے ، مشال خان کے قتل کی لرز ہ خیز واقعہ کی تفصیلات کے دوران چیئرمین و اراکین کمیٹی نے مشال کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے انتہائی افسوسناک اور دردناک قرار دیا۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ حضور ﷺکی شان میں
کوئی گستاخی قبول نہیں ،جس طرح مشال کو مارا گیا ظلم ہے۔ جو جھوٹے الزام لگائے اس کیلئے بھی سخت سزا ہونی چاہیے ۔منگل کو چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک کی زیر صدارت منعقد ہونے والے اجلاس میں مثال خان کے قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسے واقعات سے ملک کی بدنامی ہوئی ہے۔ کسی کو بھی کسی بھی صورت میں سزا دینے کی اجازت نہیں ،کمیٹی اجلاس میں مثال خان کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ کمیٹی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تحفظ ناموس رسالت ہر مسلمان کے ایمان کا جزو اولین ہے۔ لیکن اپنے مقاصد کی خاطر مذہب کے نام پر اشتعال بھی قابل مذمت ہے۔ رحمت العالمین کی سیرت ہر مسلمان کیلئے مشعل راہ ہے۔۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ حضور ﷺکی شان میں کوئی گستاخی قبول نہیں ،جس طرح مثال کو مارا گیا ظلم ہے۔ جو جھوٹے الزام لگائے اس کیلئے بھی سخت سزا ہونی چاہیے ، یہ ایک حساس معاملہ ہے۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ مردان میں دردناک اور اندوہناک واقعہ ہوا، عوامی آگاہی کیلئے نوٹس لیا، ہجوم پراسیکیوٹر، انوسٹی گیٹر اور جلاد نہیں بن سکتا ، ایسے واقعات ملک اور مذہب کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں ، کسی بھی صورت میں ہجوم کو سزا دینے کی اجازت نہیں ہے ، کمیٹی نے مثال خان پر تشدد والی ویڈیو پر پابندی عائد کر نے کی ہدایت دی۔چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے سیکرٹری داخلہ
کو ہدایت کی کہ متعلقہ حکام سے رابطہ کر کے ویڈیوز بلاک کرائیں۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنانے والے کے ذریعے اصل مجرم کو پکڑا جاسکتا ہے۔کمیٹی نے تمام یونیورسٹیوں کو اسلحہ سے پاک کرنے کی سفارش کر دی۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ چاروں وزراء اعلیٰ کو اس حوالے سے خطوط لکھے جائیں گے ، اور کہا کہ فیس بک اور ٹویٹر اکاؤنٹ قومی شناختی کارڈ سے منسلک ہونا چاہیے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ ا س مسئلے کو حل کرنے کا کام یونیورسٹی انتظامیہ کا نہیں تھا۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے مشال کو جو نوٹس جاری کیا تھا اسے واپس کیوں لینا پڑا اور سوال اٹھایا کہ ہجوم کو کنڑول کرنے کیلئے کیا پولیس کے اختیارات ، فرائض اور دیئے گئے ایس اوپی پر عمل کیا گیا یانہیں پولیس نے مشال کو بچانے کیلئے کون سے اقدامات اٹھائے۔ سینیٹر رحمان ملک نے وزارت داخلہ کو ہدایت دی کہ جو طلباء4 اور یونیورسٹی ملازمین مشال خان کے قتل مقدمے میں شامل تفتیش ہیں
ان کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔مشال خان قتل کیس میں انصاف کی ایسی مثال قائم کی جائے تاکہ آئندہ ایسے واقعات کبھی رونما نہ ہوں ، تمام مجرموں کو کڑی سزا دینا وقت کی ضرورت ہے اور ہدایت دی کہ مشال خان کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ کی درج کرائی گئی ایف آئی آر کی تفصیلات سے کمیٹی کو آگاہ کیا جائے اور تحریری طور پر بتایا جائے کہ مشال خان اور یونیورسٹی انتظامیہ کے درمیان کیا اختلافات تھے۔توہین رسالت کا الزام لگ چکا تھا ہجوم مشتعل تھا اضافی نفری اور آنسو گیس کا بندوبست بھی کیا جانا چاہیے تھا ، ڈی ایس پی کو پہلی ایف آئی آر کا بھی پتہ تھا اور سوال اٹھایا کہ کیا کچھ پروفیسر یونیورسٹی میں دو عہدوں کی تنخواہیں لے رہے تھے کہیں انتظامیہ نے انہیں بچانے کیلئے طلباء4 اور ملازمین کو مشتعل تو نہیں کیا۔ اور کہا کہ الزام ثابت نہ ہو تو الزام لگانے والے پر بھی توہین رسالت کے ارتکاب کا جرم بنتا ہے اور کہا کہ وہ پروفیسر جس کے فون سے کال کی گئی گرفتار کیا جائے۔
مشال خان کے فیس بک اکاؤنٹ کا پاس ورڈ کس کے پاس تھا ، تھرڈ پارٹی نے جعلی اکاؤنٹ بنایا۔اور کہا کہ فیس بک کے حساس معاملات کے بارے میں اگلے اجلاس میں چیئرمین پی ٹی اے کو بلوائیں گے۔اسلامی سکالرز اور اسلامی نظریاتی کونسل سے بھی اپیل کرتے ہیں کہ توہین رسالت کے بارے میں مکمل تشریح کریں ، ایوان بالاء میں بھی تجاویز دیں گے۔ آر پی او نے جواب دیا کہ جب پولیس ہاسٹل پہنچی تو مشال خان کو سینے پر گولی لگی ہوئی تھی مشال کو گولی تیسرے فلو رپر ماری گئی اور مشال کو گھسیٹ کر سیٹرھیوں سے نیچے لایا گیا جب پولیس پہنچی تو مشتعل ہجوم مشال کو زدوکوب کر رہا تھا پولیس نے مشتعل طلباء کے درمیان میں سے مشال کو نکال کر پرئیواٹ گاڑی کے ذریعے باہر منتقل کیا۔ رکن کمیٹی سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ یہ ثابت شدہ واقعہ ہے ، جوڈیشل انکوائری سے کیس تاخیر کا شکار ہوگا، اس معاملے کو لٹکانانہیں چاہیے ، جوڈیشل انکوائری کی رپورٹ آنے میں 6 ماہ کا وقت لگ جائے گا۔
ایسا اندوہناک واقعہ کسی گاؤں میں نہیں بلکہ یونیورسٹی میں ہوا۔ سینیٹر جاوید عباسی نے کہا کہ مثال خان کو مارنے والوں کو دہشتگردوں سے بھی سخت سزا دینی چاہیے۔ اس واقعہ کا توہین رسالت کے قانون سے کوئی تعلق نہیں ،ہم دنیا کو کیا منہ دکھا رہے ہیں ممتاز قادری کو عدالت نے سزادی اس کے حق میں جلوس نکالے اور مزار بنا دیا ، سب کچھ سامنے ہے جوڈیشل انکوائری کی ضرورت نہیں۔تفتیش کرنے والے پولیس افسران عدالتوں اور سرکاری دفاتر میں آتے جاتے رہے گئے اور مقدمے پر توجہ بھی نہیں رہے گی۔ سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ مشال خان کی شہادت ریاست ، حکومت ، سیاستدانوں ، مذہبی اکابرین کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔افواج پاکستان کے جوانوں اور افسروں کے سروں سے فٹ بال کھیلا جاتا رہا ، کراچی میں عقوبت خانے بنتے رہے ،باچا خان کی عدم تشدد تحریک کے پیروکار ہیں جو بھی اور جس کا بھی بیٹا ، رشتہ دار مشال خان کے قتل میں ملوث ہے سخت سے سخت سزا دینے کیلئے مقدمہ دہشت گردی عدالت میں بجھوایا جائے۔
سینیٹر شاہی سید نے کہا کہ صوبہ خیبر پختونخوا ہ کی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرز نہیں اور رجسٹرار بے اختیار ہیں۔طالبعلم وجاہت کا بیان میڈیا پر چلا ہے کہ میں شرمندہوں انتظامیہ نے کہا تھا الزام لگا دو۔ سینیٹر طاہر حسین مشہدی نے کہا کہ وقت ضائع کیے بغیر معاملہ فوجی عدالتوں کو بھیجا جائے۔ اس یونیورسٹی کا وائس چانسلر ہی نہیں ہے۔ مشال خان کی انکوائری خفیہ نہ رکھنا خطرناک ثابت ہوا ، کمیٹی کو آر پی اومردان محمد عالم شنواری نے مثال خان کیس پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایک بجے کے قریب پولیس کوولی خان یونیورسٹی میں بلوایا گیا ، اس وقت مشتعل طلبائکا ہجوم طالب علم عبداللہ کو زدکوب کر رہا تھا ،ڈی ایس پی نے عبداللہ نامی طالب علم کو بچا کر باہر نکالا۔ اس کے بعدہجوم ایڈمن بلاک میں پہنچااور جہاں مشال کو گولیاں ماری گئیں مشتعل ہجوم مشال خان کی لاش کو جلانا چاہتے تھا۔ لیکن پولیس نے لاش کو پرائیوٹ گاڑی میں منتقل کیا اور لاش کو جلانے سے بچایا۔طالب علم عبداللہ نے دفعہ 164کا بیان دیا ہے کہ میں ایک مسلمان اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں ،اور آر پی او مردان نے کمیٹی کو بتایا کہ دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے جس میں 20 افراد کو نامزد کیا گیا ہے ، 8ملزمان گرفتارکر لیے گئے ہیں۔
مثال خان کے کمرے کا جائزہ لیا گیا اس میں سے توہین رسالت کا کوئی ثبوت نہیں ملا، مثال خان ایک لائق طالبعلم تھا ، یونیورسٹی کے ایڈمن سٹاف کو شامل تفتیش کر لیا ہے جن کے مردان شہر سے باہر جانے پر پابندی لگا دی ہے۔ ابھی تک کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مشال خان نے کوئی توہین رسالت نہیں کی۔آر پی او مردان نے کہا کہ مثال خان سوشلسٹ ذہنیت کا حامل ضرور تھا ، لیکن بحث ، دلائل اور فکری گفتگو کی وجہ سے طلباء4 میں مقبول بھی تھا، ہمارے اوپر کوئی دباؤ نہیں واقعے کی تحقیقات جاری ہیں، کسی کے ساتھ کوئی رعائت نہیں کریں گے ،اس واقعہ میں ملوث افراد کو قانون کے مطابق سزا دلوائیں گے ، یونیورسٹی کیمپس میں باہر سے آنے والا ایک شخص بھی مشال خان کے قتل میں ملوث تھا جسے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس واقعے میں یونیورسٹی کا عملہ بھی ملوث ہے ،
۔ اس واقعے کی تمام فوٹیج ایف آئی اے کو فرانزک کیلئے بجھوا دی ہیں۔آر پی او مردان عالم شنواری نے یقین دلایا کہ کیس کی شفافیت ثبوتوں کی بنیاد پرہوگی ، کمیٹی نے مشال خان کے جعلی فیس بک اکاؤنٹس کے متعلق ایف آئی اے سے رپورٹ طلب تاکہ مشال خان کے جعلی فیس اکاؤنٹ بنانے والے کے اصل مجرم کو پکڑا جا سکے۔ چیئرمین کمیٹی سینیٹر رحمان ملک نے کہا کہ فیس بک اکاؤنٹ بنانے کیلئے شناختی کارڈ لازم قرار دیا جائے۔کمیٹی نے تمام یونیورسٹیوں کو اسلحے سے پاک کرنے کی سفارش کی اور چاروں وزراء4 اعلیٰ کو اس حوالے سے خطوط لکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس کیس کے تمام لوگوں کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔
ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ نے کمیٹی کو بتایا کہ وزارت داخلہ متنازع مواد کے انٹر نیٹ پر موجودگی کے حوالے سے کام کر رہی ہے ،اور کہا کہ فیس بک کا اعلیٰ سطح کا وفد وفاقی وزیر داخلہ کی دعوت پر پاکستان کا جلد دورہ کرے گا۔ کمیٹی نے ہدایت دی کہ مشال خان کے خلاف درج کرائی گئی ایف آئی آر ، چالان ، ضمانت ہوئی یا نہیں کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا جائے۔ اجلاس میں سینیٹرز محمد جاوید عباسی ، شاہی سید، کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی، محمد علی سیف ، ایڈیشنل سیکرٹری وزارت داخلہ ،آر پی او مردان عالم شنواری کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔