پشاور(آئی این پی )انسپکٹرجنرل آف پولیس خیبر پختونخوا صلاح الدین خان محسود نے کہا ہے کہ سانحہ مردان میں اب تک 26 ملزمان گرفتار کئے جاچکے ہیں، پولیس کی تفتیش درست سمت میں کامیابی سے آگے بڑھ رہی ہے،قتل کے پیچھے محرکات یہ تھیں کہ دوطلباء نے مشال خان اور ان کے دوستوں زبیر اور عبداللہ کے خلاف دعوی کیا تھا کہ انہوں نے نازیبا الفاظ ادا کئے ہیں،وہ سنٹرل پولیس آفس پشاور میں سانحہ مردان کے حوالے
سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ آئی جی پی نے کہا کہ 13اپریل کو عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کا قتل ہوا۔ اسی روزعبدالولی خان یونیورسٹی کے کمیٹی روم میں انکوائری منعقد ہوئی۔ جس میں کمیٹی کے ممبران نے مشال خان اور انکے دو ساتھی طلباء کو طلب کیا تھا۔مشال خان اور زبیر کمیٹی کے سامنے پیش نہ ہوسکے تاہم عبداللہ پہنچ گیا۔ انکوائری میں فیکلٹی ممبران یونیورسٹی اہلکار اور طلباء بھی تھے۔ اس انکوائری کا علم تمام طلباء کو بھی تھا۔ یہ انکوائری مشال خان کے قتل سے چند گھنٹے قبل شروع ہوئی اس دوران یونیورسٹی انتظامیہ پولیس کے ضلعی اور دیگر افسران سے رابطہ نہ کرسکی اوریونیورسٹی اپنے طور سے سب کچھ کررہی تھی۔ عبداللہ نے اپنے سمیت اپنے دیگر دوساتھیوں پر بھی الزام کا انکار کیا یہ اور بات ہے کہ عبداللہ کو مکمل صفائی کا موقع نہ مل سکا کیونکہ ہنگامہ آرائی شروع ہوچکی تھی۔ اور یونیورسٹی کے کنٹرول سے نکل چکا تھا۔ طلباء فیکلٹی ممبران نے عبداللہ کو مشتعل ہجوم سے باتھ روم میں چھپایا۔ 12بجکر 15منٹ شیخ ملتون کے ڈی ایس پی کو جب اس واقعے کی اطلاع ملی تو وہ فوراً موقع پر پہنچا۔اسی دوران جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کے طلباء نے چیئرمین کے کمرے کے باتھ روم کا دروازا توڑ کرعبداللہ کو باہرنکالا تھا اور اس کومار رہے تھے۔آئی جی پی نے کہا کہ ڈی ایس پی کاکام بچے کو بچانا تھا۔ اس لیے انہوں نے عبداللہ کو گاڑی میں ڈالا اور یونیورسٹی گیٹ سے باہر لے گئے۔ عبداللہ کو چوٹیں آئیں تھی۔
دریں اثناء ڈی ایس پی شیخ ملتون نے اس واقعے کی اطلاع پولیس کو دی ہوئی تھی اور مزید نفری طلب کی گئی تھی۔جس میں سے ایک نے عبداللہ کو گاڑی میں محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ ابھی تک ڈی ایس پی پر تفصیل واضح نہیں تھی۔ وہ واپس یونیورسٹی میں پہنچا۔فیکلٹی نے ڈی ایس پی اور ایس پی کے پہنچنے کے بعد پولیس کوبلایا۔ انہیں انتظامی بلاک میں لے گئے۔ پولیس نے کاروائی شروع کی۔ آئی جی پی نے کہاکہ فیکلٹی نے کوشش کی لیکن انکوائری فیکلٹی کا کام نہ تھا۔پولیس کو اطلاع ہونی چاہئے تھی۔ اسی اثناء ہاسٹل نمبر 1جو ایڈمنسٹریشن بلاک سے آٹھ سو نوسو کا گز فاصلے پر ہے سے فائرنگ کی آواز آئی۔ اور مشال کو قتل کردیا گیا مشال خان کی لاش باہر پڑی تھی۔اس کی ویڈیو سوشل میڈیا پربھی موجود ہے۔ پولیس ہجوم میں گھس گئی اور مشتعل ہجوم لاش کی بے حرمتی کے درپے تھے۔
پولیس نے حکمت عملی اور زور کا استعمال کیا لاش کو وہاں سے گاڑی کے ذریعے نکالا۔ پولیس نے ایس پی اور ڈی ایس پی کی سربراہی میں مشتعل طلباء کے خلاف لاٹھی چارج اور آنسوگیس کا استعمال کیااور 59طلباء کو گرفتار کیا جن میں ایسے طلباء بھی شامل تھے جن کے کپڑے خون آلود تھے۔ یونیورسٹی کو خالی کرادیا گیا۔ اور تمام لڑکوں کی چیکنگ، سامان کی چیکنگ اور گرفتاریاں عمل میں آئیں۔ مقدمہ درج ہوا۔ 20 افراد کی نامزدگی کی گئی ہے۔ 16 گرفتار ہو چکے ہیں۔ مزید انٹیلی جنس اور انٹاورگیشن اور تفتیش کے بعد 11 دیگر ملزمان کی شناخت ہوئی جن میں سے 6 گرفتار ہوئے۔ مردان پولیس کی جی آئی ٹی نے 28 ملزمان گرفتار کئے۔ آئی جی پی نے کہا کہ مثال ، عبداللہ اور زبیر پر جو الزامات تھے پولیس کو اس کے بارے میں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا ہے۔
پولیس نے تفتیش کو وسیع کررکھا ہے اور تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔آئی جی پی نے کہا کہ وقوعہ سے پہلے سوشل میڈیا پر تفتیشی افسران کو کچھ نہیں مل رہا تھا۔ لیکن اسکے بعد کافی سرگرمی شروع ہوئی جس کے بعد ایف آئی اے سے مدد مانگ لی گئی ہے۔آئی جی پی نے مزید کہاکہ پولیس سائنسی خطوط پر تفتیش کررہی ہے۔اور کسی لحاظ سے بھی سخت محنت اور تدبر میں کمی نہیں کرے گی۔ آئی جی پی نے کہا کہ عبداللہ نے آج عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرایا ہے۔آئی جی پی نے یہ بھی کہا ہے کہ پولیس نے کامیابی حاصل کرلی ہے۔26 ملزمان سے کافی معلومات ملی ہیں۔ تفتیش کی سمت درست ہے۔ اورامید ظاہر کی کہ مردان پولیس اس اہم کیس میں ضرور اچھا نتیجہ دے گی۔