مردان(مانیٹرنگ ڈیسک) عبد الولی خان یونیورسٹی کے طالبعلم مشال خان کو قتل کئے جانے کے موقع پر موجود ایک عینی شاہد نے بتایا کہ مشعال اور عبداللہ جو کہ ابلاغ عامہ کے طالب علم تھے، ان دونوں پر فیس بک پر احمدی فرقے کا پرچار کرنے کا الزام عائد کیا جارہا تھا۔موقر قومی اخبار کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ عینی شاہد کے مطابق مشتعل طلبہ نے ہاسٹل کے کمرے میں عبداللہ کو گھیرے میں لیا اور اسے زبردستی قرآنی آیات پڑھائیں اور اس
کے بعد اسے تشدد کا نشانہ بنایا۔اطلاع ملتے ہی پولیس جائے وقوع پر پہنچی اور عبداللہ کو اپنی حفاظتی تحویل میں لے لیا جس کے بعد مشتعل ہجوم نے مشعال کی تلاش شروع کردی جو کہ اس وقت ہاسٹل میں ہی موجود تھا۔عینی شاہد کے مطابق ہجوم نے مشعال کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گولی بھی ماری جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوگیا۔اس واقعے کی سامنے آنے والی ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ مشعال زمین پر بے حس پڑا ہوا ہے اس کے ارد گرد لوگ کھڑے ہیں۔