منگل‬‮ ، 24 دسمبر‬‮ 2024 

’’کرپشن کی نئی تاریخ رقم ‘‘ پٹرول اور گیس کے نام پر پاکستانیوں کو کس طرح بیوقوف بنایا جا تا رہا ؟ سنسنی خیز انکشاف

datetime 10  اپریل‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(آن لائن) وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) نے وزارت پٹرولیم و قدرتی وسائل کے چند اعلیٰ افسران کی ملی بھگت سے 40 آئل و گیس کمپنیوں کی جانب سے کیے گئے اربوں روپے کے غبن کے خلاف تحقیقات کا آغاز کردیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق یہ تحقیقات 40 قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کی جانب سے مبینہ طور پر کی گئی 86 ارب روپے کی خرد برد کے حوالے سے کی جائے گی۔ایف آئی اے لاہور میں جمع کرائی گئی شکایت میں وزارت پٹرولیم کی 2013 سے 2015 تک کی آڈٹ رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے

الزام عائد کیا گیا تھا کہ ان کمپنیوں نے 2012 سے 2015 کے دوران عوام سے پٹرولیم اور گیس سرچارج کی مد میں اربوں روپے اکھٹا کیے۔آڈٹ رپورٹ کے مطابق ’9 کمپنیوں نے وزارت پٹرولیم کے افسران کی ملی بھگت سے اربوں روپے مالیت کا تیل فروخت کیا جبکہ گذشتہ 6 سالوں کے دوران 34 تیل کے کنوؤں سے ’تجرباتی پیداوار‘ کے نام پر غبن کیا گیا‘۔قانون کے مطابق ’کسی بھی تیل کے کنویں سے تجرباتی پیداوار 2 سال تک کی جاسکتی ہے جس کے بعد نئے کنوؤں کو بند کیا جانا یا اس کی فروخت کو کمرشل قرار دیا جانا ضروری ہے‘۔ واضح رہے کہ وزارت پٹرولیم اب تک چند کمپنیوں سے 48 ارب روپے برآمد کرنے میں کامیاب ہوسکی ہے جبکہ ان کمپنیوں سے مزید 86 ارب روپے برآمد کرنا باقی ہیں، مذکورہ کمپنیوں نے 2002 میں تیل اور گیس کی تلاش کے لائسنس حاصل کرنے کے باوجود 2012 تک اس کام میں ایک ڈالر کی سرمایہ کاری بھی نہیں کی۔علاوہ ازیں سوئی نادرن اور سوئی سدرن گیس کمپنیاں بھی گیس سرچارج کی مد میں بھاری رقوم وصول کرکے منافع بنا چکی ہیں جنہیں دراصل حکومتی خزانے میں جمع ہونا تھا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایک ایف آئی اے عہدیدار کا کہنا تھا کہ

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پر ایجنسی نے قومی اور بین الاقوامی کمپنیوں کی جانب سے اربوں روپے کی مبینہ خردبرد کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا۔ان کا کہنا تھا ’اب تک ہم کچھ کمپنیوں سے 2.13 ارب روپے برآمد کرچکے ہیں جبکہ ایف آئی اے اس خرد برد میں وزارت پٹرولیم کے چند اعلیٰ افسران کی ملی بھگت کے حوالے سے تحقیق میں بھی مصروف ہے‘۔مذکورہ عہدیدار کے مطابق ’کرپشن میں ملوث افسران کو طلب کیا جائے گا، جبکہ غبن میں ملوث کمپنیوں کے نمائندگان کو بھی

تفتیش کے لیے طلب کیا جارہا ہے‘۔انہوں نے مزید کہا کہ مذکورہ کمپنیوں نے تیل حاصل کیا تاہم ایک مدت تک اس کا ٹیکس ادا نہیں کیا، اسی طرح تجرباتی مقصد کے لیے مختص حکومتی مشینری کے ذریعے نکالے گئے تیل کو بھی غیرقانونی طور پر فروخت کیا گیا اور حکومتی خزانے میں کچھ بھی جمع نہیں کروایا گیا۔ایف آئی اے عہدیدار کے مطابق ’کچھ صورتوں میں حکومت کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے تحت 3 سال تک تیل نکالا جاسکتا ہے تاہم یہ سلسلہ 10 سال تک جاری رہا اور محکمے نے اس حوالے سے کوئی کارروائی نہیں کی۔#/s#

موضوعات:



کالم



طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے


وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…

ایک ہی بار

میں اسلام آباد میں ڈی چوک سے تین کلومیٹر کے فاصلے…

شیطان کے ایجنٹ

’’شادی کے 32 سال بعد ہم میاں بیوی کا پہلا جھگڑا…