پیر‬‮ ، 30 دسمبر‬‮ 2024 

’’ماما ۔۔۔۔! پاپا بول کیوں نہیں رہے؟‘‘ لاہور دھماکے میں شہید ہونے والے ڈی آئی جی مبین ،کانسٹیبل محمد اسلم کو ہر جگہ اپنے ساتھ رکھتے تھے ایسا کیوں تھا ؟ جان کر آپ بھی آبدیدہ ہو جائیں گے

datetime 2  مارچ‬‮  2017
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) سانحہ چیئرنگ کراس میں شہید ہونے والے کیپٹن (ر) احمد مبین شہید سی ٹی او کے ساتھ شہید ہونے والے دو گن مین کانسٹیبل محمد اسلم اور کانسٹیبل محمد عرفان کا تعلق ایلیٹ فورس قصور سے تھا، دونوں ہی فرض شناس اور بہادر نوجوان تھے جنہوں نے عوام کی جان و مال کی خفاظت کے لیے اپنے افسر شہید احمد مبین کے ساتھ

ہی جامِ شہادت نوش کیا۔کانسٹیبل محمد اسلم کا تعلق ضلع قصور سے تھا جبکہ محمد عرفان منڈی احمد آباد ضلع اوکاڑہ سے تھا۔کانسٹیبل محمد اسلم ضلع قصور کے علاقے جونیکی میں 21 مئی 2006ء کو محکمہ پولیس ضلع قصور میں بطور کانسٹیبل بھرتی ہوا تھا، محکمہ کے رول اینڈ ریگولیشن کے مطابق بھرتی ہوتے ہی پنجاب کانسٹیبلری فاروق آباد میں تعینات ہوگیا اور 2 نومبر 2009ء کو ضلع قصور واپس آمد کی، قصور میں تین سال تک فرض شناسی کے ساتھ فرائض سر انجام دینے کے بعد 12 اپریل 2012ء کو ایلیٹ فورس قصور جوائن کی اور بعد میں دہشتگردی کے ناسور سے نمٹنے کے لیے کاونٹر ٹیرارزم ڈیپارٹمنٹ میں 15 جون 2013 کو شمولیت اختیار کر لی۔ جہاں پر کیپٹن (ر) احمد مبین جیسے شفیق افسر نے محمد اسلم کی فرض شناسی، بہادری اور تُندہی کو دیکھتے ہوئے اپنا گن مین رکھ لیا۔ افسراور ماتحت کا اتنا مضبوط رشتہ تھا کہ جب شہید احمد مبین کو سی ٹی او تعینات کیا گیا تو محمد اسلم کو بھی اپنے ساتھ لے آئے اور 13 فروری کی شام پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں چیئرنگ کراس پر ڈرگ ایکٹ کے خلاف دوا ساز کمپنیوں، فارما مینو فیکچر اور کیمسٹس کے حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران دہشت گردوں کی بزدلانہ

کاروائی کے دوران خود کش بم دھماکے کی وجہ سے سینئر افسران کے ساتھ کانسٹیبل محمد اسلم بھی اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا، کانیسٹیبل محمد اسلم کی نمازِ جنازہ ایلیٹ سینٹر بیدیاں اور پھر ڈسٹرکٹ پولیس لائن قصور میں ادا کی گئی۔ کانسٹیبل محمد اسلم شہید کی میت جب آبائی گاؤں جونیکی پہنچی تو پورے گاؤں میں کہرام مچ گیا،ہر ایک آنکھ اشکبار تھی،

ماں کی گود اُجڑ چکی تھی، والد غم سے نڈھال تھا، 2 سال قبل شادی کے بندھن میں بندھنے والی دولہن بیوہ ہو چکی تھی اور ایک سالہ معصوم بیٹی اپنی ماں سے پوچھ رہی تھی کہ ” ماما ! پاپا بول کیوں نہیں رہے؟” اس بات کا جواب معصوم بچی کی ماں کے پاس تھا اور نہ ہی وہاں پر موجود لوگوں کے۔ لیکن کمال کا حوصلہ تھا اس عظیم ماں کا جس نے جوان بیٹے کی لاش پر کھڑے ہو کر یہ کہا کہ ” اگر مجھے وطن پر اپنے چاروں بیٹے بھی قربان کرنے پڑے تو اس سے دریغ نہیں کرونگی”

موضوعات:



کالم



صدقہ


وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…

شام میں کیا ہو رہا ہے؟

شام میں بشار الاسد کی حکومت کیوں ختم ہوئی؟ اس…

چھوٹی چھوٹی باتیں

اسلام آباد کے سیکٹر ایف ٹین میں فلیٹس کا ایک ٹاور…

26نومبر کی رات کیا ہوا؟

جنڈولہ ضلع ٹانک کی تحصیل ہے‘ 2007ء میں طالبان نے…

بے چارہ گنڈا پور

علی امین گنڈا پور کے ساتھ وہی سلوک ہو رہا ہے جو…

پیلا رنگ

ہم کمرے میں بیس لوگ تھے اور ہم سب حالات کا رونا…