اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک ) پاکستان کے سابق آرمی چیف جنرل(ر) راحیل شریف 39ممالک کی سربراہی قبول کرنے جا رہے ہیں جس پر میڈیا اور سیا سی حلقوں میں تشویش کی لہر پائی جاتی ہے ۔بتا یا جا رہا ہے کہ اسلامی فوج کے اتحاد کی سربراہی کے حوالے سے ابھی تک ریٹائرڈ جنرل راحیل شریف نے حکومت کو بھی باقاعدہ طور پر آگاہ نہیں کیا۔
اس حوالے سے سینئر صحافی و کالم نگار حامدمیر نے اپنے تازہ کالم میں لکھا ہے کہ ’’ہر پیشے کچھ اپنے تقاضے اور اصول ہوتے ہیں۔ایک آرمی چیف عام طور پر اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد دو سال تک اندرون ملک یا بیرون ملک کوئی ملازمت نہیں کرتا۔اگر 39ممالک کی فوج کی سربراہی جیسا اہم معاملہ ہو تو پھر جنرل راحیل شریف جیسے ذمہ دار انسان کو چاہئے تھا کہ وہ اپنی حکومت سے باقاعدہ صلاح مشورہ کرتے۔آپ کو یہ سن کر حیرانی ہوگی کہ انہیں سعودی عرب کی سربراہی میں قائم کی گئی اتحادی فوج کا کمانڈر انچیف بنانے کے بارے میں ابھی تک حکومت پاکستان کو سرکاری طور پر کچھ نہیں بتا یااور نہ ہی حکومت سے کوئی منظوری لی گئی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ راحیل شریف نے انفرادی حیثیت میں کوئی فیصلہ کر لیا ہے۔حالانکہ اس اہم عہدے کے لیے راحیل شریف کی بحثیت فرد کوئی اہمیت نہیں ،اصل اہمیت پاکستانی فوج کی ہے جس کے اجتماعی کردار نے راحیل شریف کو عزت بخشی۔راحیل شریف نومبر 2013میں آرمی چیف بنے اور صرف تین ماہ کے بعد فروری 2014میں انہیں سعودی عرب کے بڑے ایوارڈ ’’آرڈر آف عبد العزیز السعود ‘‘سے نوازا گیا۔یہ ایوارڈ ایک برادر اسلامی ملک کی طرف سے راحیل شریف کو نہیں بلکہ پاکستانی فوج کے سربراہ کو دیا گیا تھا‘‘۔