کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف کی جانب سے سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی سنبھالنے پر مختلف حلقوں میں بحث شروع ہوگئی جبکہ اس فیصلے پر ان کو تنقید کا نشانہ بھی بنایا جا رہا ہے۔نجی ٹی وی جیو کے پروگرام میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے بلواسطہ اس بات کی تصدیق کی تھی کہ جنرل (ر) راحیل شریف دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائے گئے 39 اسلامی ممالک کے فوجی اتحاد کی سربراہی کریں گے۔
وزیر دفاع کے بیان کے بعد وفاقی حکومت، فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اور خود جنرل (ر) راحیل شریف کی جانب سے اس بیان کی تصدیق یا تردید سے متعلق کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔معاملہ سامنے آنے کے بعد سوشل ویب سائٹ ٹوئٹر پر راحیل شریف ٹرینڈ بن گیا جبکہ اس معاملے پر 9 ہزار 500 سے زائد ٹوئٹس کی گئیں۔ٹوئٹر پر سیاستدان، فوج کے ریٹائرڈ افسر، صحافی، ٹی وی میزبان اور دانشو راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے محض 2 ماہ بعد کیے گئے فیصلے پر سوال اٹھا رہے ہیں، تاہم ٹوئٹر پر موجود زیادہ تر سیاستدانوں کے تصدیق شدہ اکاؤنٹس نے اس معاملے پر بحث سے پرہیز کی۔ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے والے چند سیاستدانوں میں سے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے رہنما اسد عمر بھی ایک تھے، جنہوں نے اس اقدام کو بدقسمتی قراردیا، اسد عمر نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ جنرل راحیل شریف اس فوجی اتحاد کی سربراہی کر رہے ہیں، جس میں پارلیمنٹ نے شمولیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔مجلس وحدت مسلمین(ایم ڈبلیو ایم) کی جانب سے اس فیصلے پر اپنی ویب سائٹ پر بیان جاری کیا گیا، جس میں پارٹی کے سیکریٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس نے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے اس قدم کو پاکستانی مفادات کے خلاف قرار دیا اور کہاکہ سابق آرمی چیف اس تقرری سے انکار کریں۔