پشاور(نیوزڈیسک) خیبرپختونخواکے دارلحکومت پشاورمیں 2016میں خواتین سے زیادتی کے 19جبکہ ہم جنس پرستی کے 21مقدمات درج ہوئے ۔پولیس کے اعدادوشمارکے مطابق ضلع پشاور کے پندرہ تھانوں میں 2016میں ہم جنس پرستی کےواقعات کی شرح میں 100فیصداضافہ ہواجبکہ خواتین سے زیادتی کے مقدمات کی شرح میں 27فیصداضافہ ہوا۔
ایک پولیس افسرنے اس بارے میں بتایاکہ حقیقت میں 2015کے مقابلے میں ان واقعات کی شرح میں کوئی اضافہ نہیں ہواکیونکہ ماضی میں اس قسم کے مقدمات کی ایف آئی آربھی درج نہیں ہوتی تھی اورجب ایف آئی آرکااندراج شروع ہواہے تویہ تعداد سامنے آئی ہے ۔
اس بارے میں انسانی حقوق کی نمائندہ عظمی مقبول نے بتایاکہ خواتین سے زیادتی کے مقدمات پولیس کی طرف سے پیش کردہ اعدادوشمارسے زیادہ ہیں ۔انہوں نے بتایاکہ خواتین بدنامی کے خوف سے ایف آئی آردرج نہیں کراتی ہیں اوراگرمقدمہ درج بھی ہوجائے توملزم ناکافی ثبوت ہونے کی وجہ سے بچ جاتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ زیادتی کے مقدمات زیادہ ہیں لیکن ایسی زیادتی کاشکار خواتین غریب ہونے کی وجہ سے خاموش رہنے کوہی ترجیح دیتی ہیں ۔عظمی مقبول نے مزید بتایاکہ پولیس کے پاس اس قسم کے مقدمات کی تحقیقات کےلئے وسائل کی بھی کمی ہے ۔
انسانی حقوق کی تنظیم کے ایک اورنمائندہ عمران ٹاکرنے بتایاکہ اس معاملے میں تمام سٹیک ہولڈرزکواپناکرداراداکرناہوگا۔انہوں نے کہاکہ حکومت ،پولیس اورمیڈیااپنافعال کرداراداکریں تاکہ بچوں سے زیادتی کاتدارک ہوسکے ۔انہوں نے کہاکہ اس معاملے کوکنڑول کرنےکےلئے ایک موثرنظام لایاجائے ۔بچوں کے حقوق کے ایک نمائندے ارشدمحمود نے تجویزپیش کی کہ بچوں کوزیادتی سے بچانے کےلئے سری لنکامیں قائم کردہ اتھارٹی کی طرزپرایک ادارہ قائم کیاجائے ۔اس طرح بچوں کوزیادتی سے بچایاجاسکتاہے اورایساادارہ وزیراعلی کوبھی جوابدہ ہوگاجیساکہ سری لنکامیں ہے ۔