ہیوسٹن/ ٹیکسس(این این آئی)امریکی صدارتی انتحابات میں مسلمانوں کے خلاف کی عام تعصب کی وجہ سے پہلی مرتبہ ایسے ووٹروں کی رجسٹریشن میں اضافہ ہوا ہے جن کی عمر 18 برس سے زیادہ ہے اور جنھوں نے اس سے پہلے کبھی ووٹ نہیں ڈالا۔میڈیارپورٹس میں بتایاگیا کہ امریکی مسلمانوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ایمرج یو ایس کے مطابق پاکستانی نڑاد امریکیوں کا مرکز سمجھے جانے والی ریاست ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن میں اب تک 16 ہزار کے قریب نئے ووٹر رجسٹر ہوئے ہیں۔ ان تمام ووٹروں کی عمر 18 برس سے زیادہ ہے۔ ایمرج کے کارکن آفاق درانی نے کہاکہ نئے ووٹروں میں اضافے کی ایک وجہ انتحابی جلوسوں میں مذہبی بنیاد پر تعصب ہے۔ اقلیتیں اور خاص طور پر مسلمان اپنی امریکی شناخت کو خطرے میں محسوس کر رہے ہیں جس کی وجہ سے ماضی کے برعکس وہ اس انتخابی عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہتے ہیں۔اسی کی نشاندہی کچھ عرصے پہلے کونسل آف مسلم امریکن نامی تنظیم نے بھی کی ، تنظیم کی جانب سے ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکہ میں بسنے والے 76 فیصد مسلمانوں نے نو نومبرکو ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کیا ، جن میں سے 45 فیصد نے اس کی وجہ مذہب کی بنیاد پر مسلمانوں کا نشانہ بنائے جانا بتائی ہے۔ہیوسٹن کے رہائشی سعید شیخ گذشتہ ایکیس سے نہ صرف رپبلکنز کو ووٹ دیتے آئے ہیں بلکہ رپبلکنز کے لیے فنڈز بھی جمع کرتے رہے ہیں۔ مگر اس بار وہ رپبلکنز کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرامپ سے نالاں ہیں۔انھوں نے ان انتخابات میں پہلی مرتبہ اپنا ووٹ ڈیموکریٹس کو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون کے بعد مسلمانوں کی کڑی نگرانی کی وجہ سے مسلمان برداری میں رپبلکنز کے خلاف غم و غصہ تو تھا مگر ہم نے جماعت کا ساتھ نہیں چھوڑا لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستانی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ ڈیموکریٹس کا ساتھ دیں جو اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی بات کرتے ہیں۔ مذہب کی بنیاد پر کسی کو نشانہ بنانا امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔ٹیکسس رپبلکنز کا گڑھ سمج?ا جاتا ہے۔ یہاں بسنے والے مسلمان روایتی طور پر خود کو نظریات کی بنیاد پر اب بھی کسی حد تک رپبلکنز کے قریب سمجھتے ہیں مگر 2016 کے انتحابی مراحل نے بڑی حد تک مسلمان ووٹوں کا رخ ڈیموکریٹس کے بیلٹ باکس کی طرف موڑ دیا ہے۔