کراچی (این این آئی) ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC)نے سندھ ہائی کورٹ میں دائر ایک آئینی پٹیشن میں موقف اختیا ر کیا ہے کہ یونیورسٹی آف ایسٹ حیدرآباد جو کہ یکم جنوری 2011تک ہائر ایجوکیشن کمیشن سے ایک تسلیم شدہ یونیورسٹی تھی اور جس کی اسنا د سال 2012تک ہائر ایجوکیشن کمیشن پہلے بھی تصدیق کر تا رہا ہے ،اس یونیورسٹی کے الحاق کو ختم کر نے کے لئے تین ماہ کا وقت دیا جائے جس سے سینکڑوں طالب علموں اور والدین میں شدید تشویش اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے ۔واضح رہے کہ HECنے یونیورسٹی آف ایسٹ ،حیدرآباد کو2011تک تسلیم کیا ہوا تھا اورو قتاًفوقتاً بلاغ عامہ میں اس کی تشہیر کی جاتی رہی ہے جس کی بنیاد پر سینکڑو ں طلباء نے اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر ملکی اور غیر ملکی اداروں میں روزگار حاصل کیا یا مزید تعلیم حاصل کر نے کیلئے بیرون ملک چلے گئے اور آج بھی مقیم ہیں ۔ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اپنے اس بیان کو سپریم کورٹ کے 2010کے ایک فیصلے کی آڑ میں رکھا ہے جو کہ مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم ایم پی اے کی اپیل کے خلاف دیا گیا تھا جو کہ فر د واحد کے خلاف تھانہ کو عمومی ۔HECاس کی وضاحت دینے سے قاصر ہے کہ2010کے فیصلے کی بنیاد پر وہ کیسے ان طا لب علموں کے مستقبل کو تباہ و بر باد کر سکتا ہے جو سال 2010سے پہلے اپنی تعلیم مکمل کر کے اسنا د حاصل کر چکے ہیں اور جن کی اسناد کو ہائر ایجوکیشن کمیشن ،ہمیشہ تصدیق کر تا رہا ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ سال 2004میں ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پورے ملک میں غیر قانونی یونیورسٹیز کی شائع کر دہ لسٹ میں یونیورسٹی آف ایسٹ حیدرآباد کا نام نہیں تھا جس کی بنیا د پر سینکڑوں طلبا نے اس یونیورسٹی میں دا خلہ لیااور فارغ التحصیل ہوئے ۔واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ میں دائر اسی آئینی پٹیشن میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے دو ماہ پہلے یونیورسٹی آف ایسٹ ،حیدرآباد کی 2011سے پہلے جاری کر دہ اسناد کو تسلیم کر نے کا بیان عدالت میں جمع کرایا تھا اور بعد میں کسی بیرونی یا سیاسی دباؤ کے باعث ،اب HEC اپنا بیان تبدیل کر رہا ہے ۔مزید براں،سال 2013میں بھی ایک اور مقدمے میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹی آف ایسٹ ،حیدرآباد کی اسناد کو عدالت کے روبرو قبول کیا تھا ۔HECکے اس بیان کے بعد متاثرہ سینکڑو ں طلبا اور ان کے والدین نے HECکے خلاف مقدمات کی تیا ری مکمل کر لی ہے جو کہ جلد ہی ملک بھر کی عدالتوں میں دائر کر دیئے جائیں گے ۔ا س حوالے سے سندھ بھر کی تنطیمات معذورین نے اپنے اراکین کے متاثر ہو نے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔