آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ دونوں بڑے ملک ہیں‘ آسٹریلیا77 لاکھ مربع کلو میٹر لمبا پورا براعظم ہے‘ نیوزی لینڈ کا رقبہ تین لاکھ مربع کلو میٹر ہے‘ نیوزی لینڈ کی آبادی 45 لاکھ اور آسٹریلیا میں دو کروڑ 43 لاکھ لوگ رہتے ہیں‘ آسٹریلیا کے اندر ہزار ہزار کلو میٹر تک آبادی کا نام و نشان نہیں‘ آسٹریلیا آج بھی آباد کاری کے عمل سے گزر رہا ہے‘ یہ ہر سال دنیا سے لاکھوں لوگ درآمد کرتا ہے لیکن یہ تمام درآمد شدہ لوگ ”سکلڈ“ ہوتے ہیں‘ آپ کے پاس اگر ہنر ہے یا آپ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں تو پھر آپ کےلئے آسٹریلیا کے دروازے کھلے ہیں‘ آسٹریلیا کو لاکھوں ہنر مند لوگوں کی ضرورت ہے‘ پاکستان کے زیادہ تر نوجوان ملک سے باہر جانا چاہتے ہیں‘ یہ اس کےلئے جان تک جوکھوں میں ڈال دیتے ہیں‘ ہمارے نوجوان یورپ اور امریکا کے بجائے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کی طرف کیوں نہیں دیکھتے؟ ہمارے نوجوان ٹیکنیکل ٹریننگ لیں‘ یہ سر ٹیفکیٹ حاصل کریں‘ اپلائی کریں اور جہاز پر بیٹھ کر آسٹریلیا چلے جائیں‘ ہم ایسا کیوں نہیں کرتے؟ حکومت کو اس آپشن پر بھی ضرور غور کرنا چاہیے‘ آسٹریلیا میں ہر کام کےلئے سر ٹیفکیٹ اور ڈپلومے کی ضرورت ہوتی ہے‘ ملک میں پلمبرنگ‘ الیکٹریشن‘ پینٹر‘ کار پینٹر‘ مکینکس‘ اینٹیں لگانے‘ سریے کا کام کرنے حتیٰ کہ گھاس کاٹنے کےلئے بھی سر ٹیفکیٹ اور لائسنس ضروری ہے‘ آپ لائسنس کے بغیر کوئی کام نہیں کر سکتے ‘ آسٹریلیا میں لائسنس کے سٹینڈرڈ بہت ہائی ہیں‘ حکومت نے اس کےلئے (TAFE) کے نام سے ایک ادارہ بنا رکھا ہے‘ یہ ادارہ ٹیکنیکل لوگوں کے معیار کا خیال رکھتا ہے‘ ملک بھر میں ہزاروں ادارے ہیں‘ یہ ادارے ٹریننگ دیتے ہیں‘ ملک میں کوئی شخص ٹریننگ کے بغیر کام کو ہاتھ نہیں لگا سکتا‘ ہماری حکومت (TAFE) کے ساتھ مل کر پاکستان میں آسٹریلین معیار کے ٹیکنیکل ادارے بنا سکتی ہے‘ یہ ادارے ٹریننگ دیں‘ TAFE پاکستانی نوجوانوں کا امتحان لے اور یہ نوجوان بعد ازاں باعزت طریقے سے آسٹریلیا چلے جائیں‘ ہم اس طرح ہر سال 50 ہزار پاکستانی نوجوان آسٹریلیا بھجوا سکتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب اور ہمارے دوست ذوالفقار چیمہ کسی دن وقت نکال کر TAFE اور آسٹریلین ماڈل کا مطالعہ کر لیں‘ مجھے یقین ہے ملک میں چھوٹا سا معاشی انقلاب آ جائے گا‘ ہماری حکومت کے پاس اگر وقت نہیں ہے تو یہ کام پرائیویٹ سیکٹر بھی کر سکتا ہے‘ ملک کی دس بڑی کنسٹرکشن کمپنیاں مل کر کنسورشیم بنائیں‘یہ کنسورشیم آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ معاہدے کرے‘ ان کے سلیبس اور ٹریننگ ماڈل لے اور پاکستانی نوجوانوں کو ٹریننگ دینا شروع کر دے‘ یہ نوجوان ٹریننگ کے بعد آسٹریلیا چلے جائیں تو سو بسم اللہ ورنہ دوسری صورت میں یہ ملک کے اندر کا کلچر بدل دیں گے۔
ہم بیس کروڑ لوگوں کا ملک ہیں لیکن جب ہم ملک میں اچھا پلمبر‘ اچھا الیکٹریشن‘ اچھا مکینک اور اچھا پینٹر تلاش کرتے ہیں تو ہمیں دور دور تک کوئی بندہ بشر نظر نہیں آتا‘ کیوں؟ ہماری حکومت کو بھی ملک میں آسٹریلیا کی طرح ٹریڈز کےلئے سر ٹیفکیٹ اور لائسنس لازمی قرار دے دینا چاہیے‘ لوگ کورس کریں‘ سر ٹیفکیٹ اور لائسنس لیں اور اس کے بعد کام کو ہاتھ لگائیں‘ آپ ستم ملاحظہ کیجئے ہمارے ملک میں ایوان صدر‘ وزیراعظم ہاﺅس اور آرمی چیف ہاﺅس میں بھی پانی‘ بجلی اور انٹر نیٹ کی وائرنگ ان پڑھ مستریوں کے ہاتھوں سے انجام پاتی ہے‘ ہم پچاس پچاس لاکھ کی گاڑیاں غیر تربیت یافتہ چھوٹوں کے حوالے کر دیتے ہیں اور یہ وہ وجہ ہے جس کی وجہ سے آپ ملک کے کسی ایوان‘ کسی گھر میں چلے جائیں‘ آپ کو وہاں ”سیم“ بھی نظر آئے گی اور آپ وہاں ٹونٹی سے ٹپکتا ہوا پانی بھی دیکھیں گے‘ ہم لوگوں کو ٹرینڈ کیوں نہیں کرتے‘ ہم سسٹم کیوں نہیں بناتے‘ ہم ترقی یافتہ قوموں سے کیوں نہیں سیکھتے‘ میں آپ کو فجی کی مثال دیتا ہوں
جاوید چودھری کے جمعتہ المبارک 15جولائی کو شائع ہونے والے کالم ”سیکھنے والی باتیں“ سے اقتباس
بیرون ملک جانے کے خواہشمندوں کیلئے بڑی خبر،دو ایسے ممالک جہاں ہر سال لاکھوں تارکین وطن روزگار حاصل کررہے ہیں

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں