اسلام آباد (این این آئی)وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاہے کہ دہشتگردی کے خلاف بندوق کی جنگ جیت رہے ہیں اپوزیشن رہنماﺅں کی بلا جواز تنقید سے نفسیاتی جنگ ہار رہے ہیں ¾ ملک حالت جنگ میں ہے ¾ مایوسی پھیلانے والے بیان در اصل دشمنوں کو مضبوط کر نے کے مترادف ہیں ¾ قومی سلامتی کے معاملات پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں ہونی چاہیے ¾ چار سدہ یونیورسٹی پر حملے کے بعد کے پی کے میں سکول بند نہ کر نے کا فیصلہ اچھا ہے ¾ پنجاب بھی سکول بند نہ کرے ¾ مولانا عبد العزیز معاملہ سمیت ایک ایک چیز سینٹ کے سامنے لے آﺅنگا ¾ اپوزیشن لیڈر نے اپنے عہدے کا فائدہ اٹھایا ¾ کسی کو میری شکل پسند نہیں تو میں کیا کروں ¾ قومی سلامتی کے معاملات پر سیاست نہیں کر نی چاہیے ¾آرمی چیف کی ریٹائر منٹ کا فیصلہ ذاتی ہے ¾کوئی تبصرہ نہیں کرونگا ¾سکیورٹی کے لئے میڈیا ہاﺅسز اور سکول والے سکیورٹی گارڈ ز کو چھتوں اور خفیہ جگہوںپر تعینات کرینگے ¾وزیر اعظم کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں ۔ جمعرات کو انٹرایکٹو وائس ریسپانس ہیلپ لائن سروس کا باضابطہ طور پر افتتاح کر نے کے بعد میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے وزیرداخلہ چوہدری علی خان نے کہاکہ ہم حالت جنگ میں ہیں اور جنگیں صرف بندوقوں اور گولیوں سے نہیں لڑی جاسکتی ہیں جنگیں لڑنے کا اہم پہلو نفسیانی ہوتی ہے فوج ¾ پولیس اور ایجنسیوں کے تعاون سے ہم بندو ق کی جنگ جیت رہے ہیں لیکن نفسیانی جنگ ہار رہے ہیں اگر ہم خود ہی فیصلہ کر لیں کہ خوف کی فضا پیدا کرنی ہے تو پھر دشمن کی کیا ضرورت ہے ؟ نیشنل ایکشن پلان پر وہی لوگ تنقید کر رہے ہیں جنھوں نے کبھی اسے پڑھا ہی نہیں ۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ ضرب عضب نیب کا حصہ نہیں دو ایک چیزیں فوج کے حوالے سے ہیں باقی سویلین کے حوالے سے ہے۔انہوںنے کہاکہ دہشتگردی کے خلاف شروع کیے گئے نیشنل ایکشن پلان کی وجہ سے کامیابیاں حاصل ہورہی ہیں اور گذشتہ 9 برس کے مقابلے میں ہلاکتوں کی تعداد کم ہوئی ہے ¾گذشتہ ادوار میں روزانہ 7 ¾7 دھماکے ہوتے تھے مگر آج اللہ کی مہربانی سے کئی کئی ماہ تک کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوتا۔وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپوزیشن رہنماو¿ں کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ جن سیاست دانوں نے اپنے دورمیں کچھ نہیں کیا وہ اب بیٹھ کر لفاظی کرتے ہیں۔چوہدری نثار نے کہا کہ تنقید کرنے والوں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ نے 5 سال میں کیا کیا ؟ حکومت کو بے شک کوئی کریڈٹ نہ دیں لیکن مایوسی نہ پھیلائیں۔وزیر داخلہ نے کہاکہ دہشت گردی کے ایک واقعہ پر طوفان برپا کردیا جاتا ہے کچھ لوگ در اصل وہی کرتے ہیں جو دشمن چاہتا ہے۔اس وقت یہ جنگ جاری ہے اور جب جنگ جاری ہوتی ہے دو دونوں طرف سے وار ہوتے ہیں دنیا میں روایت ہے کہ ملک حالت جنگ میں ہو تو وہی چہرہ سامنے آنا چاہیے جو دشمن کو کمزور اور ملک کو مضبوط کرے۔چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ جب ملک حالت جنگ میں ہو تو قوم کو امید دلائی جاتی ہے انھیں مایوسی کی طرف نہیں دھکیلا جاتا یہ دراصل دشمنوں کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے۔چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری ہے اور جب جنگ ہوتی ہے تو وار دونوں طرف سے ہوتے ہیں تاہم اس سلسلے میں سیاسی پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہیے ¾ دہشت گردی کے خلاف بندوق کی جنگ جیت رہے ہیں نفسیاتی جنگ ہار رہے ہیں۔ انہوںنے بتایا کہ ہماری حکومت آنے سے قبل ایک سال میں 2500سے زائد شہادتیں سویلین لوگوں کی ہوئی ہیں 2014ءمیں سات سو شہادتیں تھیں جن میں آرمی پبلک سکول کاواقعہ بھی شامل ہیں جبکہ 2015ءمیں تقریباً چار سو سے زائد شہادتیں ہوئیں ¾ہمارے دور حکومت سے قبل ایک واقعہ میں پچاس سے زائد شہادتوں کے بارہ واقعات ہوئے۔وزیر داخلہ نے کہاکہ اب دہشتگرد آسان اہداف کو نشانہ بناتے ہیں تاکہ عوام میں خوف پھیلایاجائے چند سیاسی عناصر مایوسی پھیلا رہے ہیں تکلیف انہیں پیٹ میں ہے اور وہ روانا سر درد کا رو رہے ہیں اگر کسی کو ڈاکٹر عاصم ¾ ایف آئی اے اور کرپشن کیسز کے حوالے سے تکلیف ہے تو وہ اس پر بات کریں مگر سوال گندم جواب چنا کی بات درست نہیں کسی کو میری شکل پسند نہیں تو نہ ہو لیکن قومی ایشوز پر سیاست نہ کریں اور نیب پر غصہ نہ نکالیں ۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ یہاں بیماری کا بھی سکینڈل بنایا جاتا ہے چار سدہ واقعہ کے بعد میں نے بیڈ سے مذمتی بیان جاری کیا جو پورا دن میڈیا پر چلتا رہا دوسرے دن پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر کا بیان آیا کہ چوہدری نثار علی خان کا بیان نہیں آیا اور وہ بھی سارا دن میڈیا پر چلتا رہا ۔وزیرداخلہ نے بتایا کہ میری بیماری کا مذاق اڑایا گیا میڈیا پر پروگرام چلائے گئے کوئی بھی بیمار ہوسکتا ہے مجھے میڈیا کے کچھ حلقوں کے رویہ پر افسوس ہوا ہے ۔چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ بیماری کے باوجود میں نے سرکاری امور گھر پر سرانجام دیئے وزیراعظم نواز شریف نے بھی مجھے آرام کر نے کامشورہ دیا مگر مسلسل کام کی وجہ سے میری بیماری بڑھ گئی انہوں نے کہا کہ تنقید کرنے والے جواب دیں انہوں نے پانچ سالوں میں کیا کیاہے ،پانچ سال پورے کرنے والے جب دھماکے ہوتے ہیں تو ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ ہم نے پانچ سال پورے کیے ہیں۔چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ چار سدہ سانحہ کے بعد ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کا فون آیا اور پوچھا کہ کیا سکول بند کر دنے چاہئیں جس پر میں نے کہاکہ نہیں ہم نے ان کا مقابلہ کر نا ہے اور یہاں کمزوریاں ہیں ان کو دور کر نا ہے ایک دہشتگردانہ واقعہ پر ہم ملک کے سکول بند نہیں کر سکتے اور انہیں کہاکہ اسلام آباد کے سکول کھلے رہیں وزیر داخلہ نے کہا کہ اسکولوں کی بندش پر انھیں شدید اختلاف ہے اور ہمیں دشمن کو طاقت ¾جیت اور اتفاق و اتحاد کا پیغام دینا چاہیے اسکولوں کا مسئلہ نفسیاتی مسئلہ ہے ¾کیا ہم ڈر کر گھروں میں بند ہوکر بیٹھ جائیں، چھوٹی موٹی دھمکیوں پر اسکول بند کرنا مناسب نہیں۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ خیبر پختون خوا نے سکول بند نہ کر کے اچھی مثال کی ہے پنجاب اور دیگر صوبوں سے کہونگا کہ وہ سکول بند نہ کریں ¾ اسلام آباد کے حوالے سے تین میٹنگیں خاموشی سے کر چکا ہوں ہر بات کی تشہیر نہیں کی جاتی ہمیں دہشت اور خوف کے خلاف بھی لڑناہے ۔انہوںنے کہاکہ امن وامان کی ذمہ داری صوبائی حکومت کی ہے مگر میں نے اس حوالے سے اشارہ تک نہیں دیا لیکن مجھ پر تنقید ہوتی رہی ہے چند دن سے پوری پارٹی کے خاندان ان کے نوجوان ¾ بزرگ اور خواتین بھی مجھ پر تنقید کررہی ہیں ان کو تکلیف تو کچھ اور ہے وہ اینٹ سے اینٹ کسی اور کی بجانے نکلے تھے مگر جھوٹ کی کنکریاں مجھ پرپھینک رہے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ سکولوں پر حملے ملا فضل اللہ والا مائنڈ سیٹ کررہا ہے کوئی اچھا یا برا انتہا پسند نہیں سب ایک ہیں ۔چوہدری نثار نے کہا کہ سینٹ میں میری غیر موجودگی میں مولانا عبد العزیز کے حوالے سے بہت سی غلط بیانی کی گئی ¾ بہت سارا ریکارڈ عوام او ر سینٹ میں پیش کرونگا تاکہ جولوگ ابہام پیدا کرتے ہیں ان کا اصل چہرہ عوام کے سامنے لایا جائے وزیر داخلہ نے کہا کہ ذمہ دار لوگ قوم کے سامنے غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں تاہم وہ ایک ایک چیز سینیٹ کے سامنے لے کر آئیں گے۔انہوںنے کہاکہ مجھے کسی سے کچھ نہیں چھپانا اور میں جان بوجھ کر غلط بیانی نہیں کرتا وزیر داخلہ نے کہا کہ حقائق ایک ایک کر کے قوم کے سامنے رکھوں گا۔انہوں نے کہا کہ حکومت کے اچھے اقدامات کی تشہیر کی جانی چاہئے۔ انہوںنے کہاکہ میرے دورہ کراچی کے حوالے سے بھی غلط کہا گیا اور یہ بھی کہا گیا کہ میں وزیر اعظم کی نہیں مانتا ¾ عوام کی بات نہیں مانتا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سندھ حکومت اپنا موقف لے کر ہمارے پاس آئی تھی اور میں نے حکومت کی طرف سے اپنا موقف پیش کیا ۔میٹنگ کے خاتمے کے بعد جب وہ دروازے سے نکل رہے تھے تو میں نے کہا شاہ صاحب شاید میں کراچی آﺅں جس پر انہوںنے کہاکہ موسٹ ویلکم !لہذا کراچی جانے کا طے نہیں ہوا تھا میری ایک بات کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں ¾ ایک میٹنگ کی غلط تشہیر کی گئی تو میری میٹنگ کی تشہیر کیسے کرینگے اس لئے کراچی نہیں گیا ۔وزیر اعظم سے تعلقات کے حوالے سے کئے گئے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہاکہ میرے اوروزیراعظم کے درمیان بہت اچھے تعلقات ہیں ۔انہوںنے کہاکہ دھماکے ¾ شہادتیں اور دیگر واقعات نیچے جارہے ہیں مگر جب ایک واقعہ ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ دہشتگرد جیت رہے ہیں کوئی ان سے نہیں پوچھتا کہ اپنے پانچ سالہ دور کتنے جو ڈیشل کمیشن بنائے ؟ان کاواحد منشور یہ تھا کہ ہم پانچ سال پورے کرینگے اب وہ لوگ مایوسی پھیلا رہے ہیں میں نے ڈھائی سال ان کی کمزوریوں کو چھپایا اور کبھی پبلک میں نہیں لایا اور اب میں نے فیصلہ کیا کہ اگلے ہفتے کے شروع میں میڈیا کی چاروں نمائندہ تنظیموں کو بلا کر نیب کی کامیابیوں اور گزشتہ آٹھ سالوں کے اعدادو شمار قوم کے سامنے رکھونگا ۔قومی سلامتی کو فقرہ بازی ¾ لفاظی اور ٹکر سے کمزور نہ کریں یہ بڑی مشکل جنگ ہے نو سال گراف اوپر جاتا رہاہے اور 2013کی پرانی اخباریں نکال کر دیکھ لیں کہ روزانہ کتنے دھماکے ہوتے تھے اس سے پہلے کوئی نیشنل پالیسی نہیں تھی سول ملٹری ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی کو آرڈینیشن نہیں تھی ہم نے ایک ایک اینٹ رکھ کر ایک سمت کاتعین کیا پاکستان کے طول و عرض میں لاکھوں سکول ہیں ہمیں دشمن کی طرف سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے ۔ماضی میں میں نے دہشتگردوں کے انٹرویو ¾ فاٹا اور افغانستان سے خود سنے جس پر میں نے میڈیا کی تنظیموں کی میٹنگ بلائی اور انہیں درخواست کی کہ دہشتگردوں کی تشہیر نہ کی جائے میں میڈیا کا شکر گزار ہوں کہ انہوںنے اس پر عمل کیا ۔ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ چیئر مین سینٹ سے میں درخواست کرونگا کہ جو جواب سینٹ میں دوں وہ براہ راست ٹیلی ویژن پر نشر کیا جائے اور جو تنقید ہو وہ بھی براہ راست دکھائی جائے ۔سید خورشید شاہ کے بیان پر وزیر داخلہ نے کہا کہ میں غیر سنجیدہ شخص کے بیان پر کوئی توجہ نہیں دینا چاہتا اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے انہوںنے کس طرح فائدہ اٹھایا وہ بھی ایک کہانی ہے انہوںنے کہاکہ خورشید شاہ کے نام کے ساتھ سید آتا ہے بس اتنا کہونگا کہ انہیں جھوٹ نہیں بولنا چاہیے ۔ایک اور سوا ل کے جواب میں وزیر داخلہ نے بتایا کہ اپوزیشن رہنماﺅں کے بیان کے بعد وزراءکے بیان آئے ہیں جن میں رانا تنویر حسین ¾ عابد شیر علی ¾ ڈاکٹر طارق فضل چوہدری اور ملک ابرار شامل ہیں وقت کے ساتھ ساتھ وزراءبیانات دیتے رہتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہاکہ اندرون سندھ بھی آپریشن کی ضرورت ہے یہ معاملہ ایپکس کمیٹی میں بھی زیر بحث آیا تھا سول آرمڈ فورسز کے حوالے سے کوئی بھی نوٹیفکیشن صرف وفاق ہی جاری کر سکتا ہے ۔ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ افغانستان کی سم کی رومنگ پاکستان میں نہیں چل سکتی لیکن افغانستان کے جو ٹاور سرحد کے نذدیک ہیں ان کی رومنگ پاکستان میں ہوتی ہے میں نے پی ٹی اے کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا ہے دوسرے مرحلے میں افغان حکومت کے ساتھ بھی یہ مسئلہ اٹھایا جائےگا ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ مقدمے کے حوالے سے مولانا عبد العزیز کا کوئی بیان جاری نہیں ہوا میں مولانا عبد العزیز کے خلاف 27کیسز کی تفصیلات سینٹ میں پیش کرونگا اس میں یہ بھی بتاﺅنگا کہ آپریشن میں کتنے لوگ شہید ہوئے ¾ مالی وسال کس نے فراہم کئے ؟دفعہ 506چار کیسز پچھلی حکومت میں ان کے خلاف تھے وہ کیسے ختم ہوئے ؟ایک سوال کے جواب میں انہوںنے کہاکہ اسلام آباد میں انسپکٹر جنرل پولیس کی تعیناتی کےلئے کوئی قابل افسر نہیں مل رہا اس وقت قائمقام آئی جی ہیں وہ بہت نیک افسر ہیں میں نے جن کو بھی تعینات ان کی شکلیں بھی نہیں جانتا تھا ۔میڈیا ہاﺅسز کی سکیورٹی کے حوالے سے سوال کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہاکہ میں نے ہدایت کی تھی کہ میڈیا ہاﺅسز کے گارڈ کی ٹریننگ کروائیں اور یہ کام پولیس اپنے خرچ پر کرے مگر یہ کام نہیں کیا گیا شہر کے وسط میں واقعہ اے آر وائی چینل پر دو لوگوں نے حملہ کیا لیکن اتنے دن گزرنے کے باوجود بھی ان لوگوں کو نہیں پکڑا گیا جس پر میں نے متعلقہ افسران کو معطل کر دیا ۔سکیورٹی کے لئے میڈیا ہاﺅسز اور سکول والے سکیورٹی گارڈ ز کو چھتوں اور خفیہ جگہوںپر تعینات کرینگے گیٹ پر صرف ایک سکیورٹی گارڈ کو تعینات کریں ۔پولیس میں ٹریننگ کا سنجیدہ مسئلہ ہے میں نے ٹرپل ون بریگیڈ کے ذریعے اسلام آباد پولیس کے 550لوگوں کو تربیت دلوائی ہے ۔میں خود سکیورٹی ہاﺅسز اور سکولوں کی سکیورٹی کا خاموشی سے جاکر جائزہ لونگا جس طرح پہلے میں ناکوں کا جائزہ لیتا ہوں ۔دہشتگرد میڈیا کی آواز دبانا چاہتے ہیں یہ میری ذمہ داری ہے کہ آپ کی آواز زندہ رہے انہوںنے کہاکہ میں نے اچھا کام کر نے والوں کےلئے گزشتہ سال بھی چار کروڑ روپے انعامی رقم رکھی تھی لیکن وہ رقم واپس چلی گئی اور کہیں سے بھی کوئی سفارشات نہیں آئیں کہ ایف سی یا پولیس اہلکاروں کو انعامی رقم دی جائے۔جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے متعلق بیان پر وزیر داخلہ نے کہاکہ یہ جنرل راحیل شریف کاذاتی فیصلہ ہے میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرونگا انہوںنے کہاکہ وزیر اعظم سے کوئی ناراضگی نہیں ہے بہت اچھے تعلقات ہیں مجھے حیرت ہے کہ کچھ لوگوں نے کس طرح بات کا بتنگڑ بنایا جھوٹ بولنا بھی ایک عادت ہے اور وہ لوگ عادت سے مجبور ہیں ۔