اسلام آباد (نیوز ڈیسک) قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے پی آئی اے کی ممکنہ نجکاری کے حوالے سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلزپارٹی سینیٹ میں پی آئی اے کی نجکاری کے بل کی شدید مخالفت کریگی ‘حکومت سے کہتے ہیں کہ وہ پی آئی اے کی نجکاری نہ کرے ، اگر حکومت نے قومی ایئرلائن کی نجکاری کی تو پیپلز پارٹی ملازمین کو اکیلا نہیں چھوڑ ے گی، طاقت کے بل بوتے پر کئے گئے فیصلے پائیدار نہیں ہوتے، بلکہ ایسے فیصلوں سے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہیں، مسلم لیگ (ن) ہمارے دور میں پی آئی اے کی نجکاری کیخلاف احتجاج کر تی تھی اور آج خود اسکی نجکاری کر رہی ہے، حکومت نجکاری کی بجائے پی آئی اے ملازمین کے ساتھ مذاکرات کرے اور ان کے ساتھ ایک سال کا معاہدہ کرے کہ وہ ایک سال میں اس ادارے کو منافع بخش بنالیں، اگر پی آئی اے انتظامیہ ادارے کو منافع بخش نہ بنا سکی تو پھر حکومت کا جو دل چاہے کرے،2012ء میں 18جہازوں کی جو سیٹ کپیسٹی تھی وہ آج 38جہاز ہونے کے باوجود نہیں بڑھ سکی،حکومت نے اپنے اڑھائی سالہ دور میں اپنے کسی ایک بھی ٹارگٹ کو پورا نہیں کیا، کشکول توڑنے کی باتیں کرنے والی حکومت نے اپنے اڑھائی سالہ دور اقتدار میں 4ہزار ارب کاقرضہ لیا،آج تیل کی قیمت 25ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے مگر حکومت 75ڈالر فی بیرل کی قیمت پر عوام کو تیل فراہم کر رہی ہے، حکومت کے معیشت بہتر ہونے کے کیسے دعویٰ بت بنیاد ہیں، معیشت کی بہتری کا اندازہ عوام کی فلاح و بہبود سے لگایا جاتا ہے، حکومت نے زراعت، صحت اور تعلیم پر کوئی کام نہیں کیا، ادارے بیچ کرمعیشت بہتر نہیں ہوتی بلکہ ادارے بیچ کر آپ غریب لوگوں سے روٹی چھین رہے ہیں۔وہ بدھ کو پارلیمنٹ ہائوس میں اپنے چیمبر میں میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کر رہے تھے۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ قومی اسمبلی سے پی آئی اے کے حوالے سے بل اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظور کروایا گیا، وفاقی وزیر زاہد حامد نے اسی روز ہم سے وعدہ کیا تھا کہ اس بل کو اگلے روز قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا مگر اپوزیشن کے واک آئوٹ کے بعد حکومت نے بل منظور کروالیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ پی آئی اے کو نقصان کس طرح ہو رہا ہے،2012ء میں پی آئی اے کے کل ریونیو کا 55فیصد فیول پر خرچ ہوتا تھا، اب 2015ء میں پی آئی اے کے کل ریونیو کا 21فیصد فیول پر خرچ ہوتا ہے، جس سے حکومت کو 34فیصد تک بچت ہو رہی ہے، اس کے باوجود حکومت اس کی نجکاری کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی اس وقت پی آئی اے میں 18ہزار ملازمین تھے،2013ء میں جن کی تعداد 16500تک رہ گئی،پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے آخری تین سالوں میں 1435ملازمین بھرتی کئے، مسلم لیگ (ن) نے اپنے اڑھائی سالہ دور حکومت میں ایک ہزار افراد بھرتی کئے، جن میں سے چیف لیگل آفیسر وسیم باری سلیمی کوماہانہ 18لاکھ روپے تنخواہ دی جا رہی ہے جبکہ 7لاکھ روپے ٹیکس ادا کیا جا رہا ہے،اس کے علاوہ رومن ٹیک کو12ہزار ڈالر علاوہ ٹیکس، چیف آپریٹنگ آفیسر ہیلبرڈ کو12ہزار ڈالر علاوہ ٹیکس ماہانہ تنخواہ ادا کی جا رہی ہے جبکہ دیگر اعلیٰ افسران کو 4,6اور 7 لاکھ تک فی کس ماہانہ تنخواہیں دی جا رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 320طیارے کی ڈیل کیلئے وکیل کو 90لاکھ روپے ادا کئے۔خورشید شاہ نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف، وفاقی وزراء سینیٹر اسحاق ڈار، سینیٹر راجہ ظفر الحق، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیرمملکت عابد شیر علی اور دیگر مسلم لیگی رہنماء ہمارے دور حکومت میں پی آئی اے کی نجکاری کے خلاف احتجاج کرتے تھے اور آج وہ خود ہی پی آئی اے کی نجکاری کررہے ہیں، موجودہ حکومت نے اپنے دور اقتدار سے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ پی آئی اے کی نجکاری نہیں کرے گی بلکہ اس کو منافع بخش ادارہ بنانے کیلئے مثبت اقدامات کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ لاہور اور راولپنڈی میں میٹرو بس پر 100ارب روپے خرچ کر دیئے گئے اور پہلے ہی سال اس کو 4 ارب روپے کی سبسڈی دے دی گئی ہے، کیا یہ ادارہ منافعے پر چل رہا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی واضح پالیسی ہے کہ اداروں کی نجکاری نہیں ہونی چاہیے، پیپلز پارٹی نے اپنے دور حکومت میں اداروں کی نجکاری کے بجائے بے نظیر سٹاک آکشن اسکیم لانچ کی، جس میں سرکاری ملازمین کو شیئرز دیئے گئے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت پی آئی اے کی نجکاری کے بجائے، پی آئی اے ملازمین کے ساتھ مذاکرات کرے اور ان کے ساتھ ایک سال کا معاہدہ کرے کہ وہ ایک سال میں اس ادارے کو منافع بخش ادارہ بنالیں، اگر پی آئی اے انتظامیہ ادارے کو منافع بخش نہ بنا سکی تو پھر حکومت کا جو دل چاہے کرے۔ انہوں نے کہا کہ 2012ء میں 18جہازوں کی جو سیٹ کپیسٹی تھی وہ آج 38جہاز ہونے کے باوجود نہیں بڑھ سکی، حکومت کی جانب سے جو 8 نئے جہاز خریدے گئے وہ دبئی تک نہیں جا سکتے، پاکستان میں کل 10 گیٹ وے ہیں،جن پر ہفتہ وار300غیر ملکی پروازیں پاکستان آتی ہیں، بھارت میں 13گیٹ وے ہیں جبکہ وہاں ہفتہ وار 102 غیر ملکی پروازیں آتی ہیں، اسی طرح بنگلہ دیش میں 2گیٹ وے ہیں اور ہفتہ وار 13غیر ملکی پروازیں آتی ہیں، حکومت نے اپنے تمام اہم اور منافع بخش روٹس غیر ملکی ایئرلائنز کو دے دیئے ہیں، ان حالات میں پی آئی اے کو خسارہ ہی ہو گا فائدہ نہیں۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ نے کہا کہ یو بی ایل، ایم سی بی، حبیب بینک اور پی ٹی سی ایل جیسے قومی اداروں کو کوڑوں کے بھائو بیچا گیا، آج بھی اتصلات نے 80ارب روپے حکومت کے دینے ہیں، پاکستان لوٹ کا مال نہیں کہ جس کا جو دل چاہے بیچ دے۔ انہوں نے کہا کہ کشکول توڑنے کی باتیں کرنے والی حکومت نے اپنے اڑھائی سالہ دور اقتدار میں 4ہزار ارب ملکی و غیر ملکی قرضہ لیا،پیپلز پارٹی نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں 2100ارب روپے قرضہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو پرویز مشرف نے ہمیں4100ارب روپے قرضے کا تحفہ دیا اور جب پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوئی تو یہ قرضہ 4800ارب روپے تک چلا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 2012ء میں 15ارب ڈالر تیل کا ایکسپورٹ بل تھا جو آج 4 ارب ڈالر تک آ چکا ہے مگر حکومت یہ فائدہ عوام کو دینے کی بجائے اپنی جیب میں ڈال رہی ہے، آج تیل کی قیمت 25ڈالر فی بیرل تک پہنچ گئی ہے مگر حکومت 75ڈالر فی بیرل کی قیمت پر عوام کو تیل فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے اپنے اڑھائی سالہ دور میں اپنے کسی ایک بھی ٹارگٹ کو پورا نہیں کیا،44 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے باوجود ٹیکس کولیکشن میں 4ارب روپے کا شارٹ فال تھا، حکومت کیسے دعویٰ کر رہی ہے کہ معیشت بہتر ہو رہی ہے، معیشت کی بہتری کا اندازہ عوام کی فلاح و بہبود سے لگایا جاتا ہے، حکومت نے زراعت، صحت اور تعلیم پر کوئی کام نہیں کیا، ادارے بیچ کرمعیشت بہتر نہیں ہوتی بلکہ ادارے بیچ کر آپ غریب لوگوں سے روٹی چھین رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری نہ کی جائے، اگر حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کی تو پیپلز پارٹی ملازمین کو اکیلا نہیں چھوڑا گی، طاقت کے بل بوتے پر اس ملک میں پہلے ہی بہت کچھ ہو چکا ہے، طاقت کے زور پر کئے گئے فیصلے پائیدار نہیں ہوتے، بلکہ ایسے فیصلوں سے مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے ہیں