اسلام آباد (نیوزڈیسک)جنرل راحیل شریف پاکستانی فوج کے 15 ویں سربراہ ہیں مگر اس اعتبار سے وہ چوتھے جنرل ہوں گے جو تین سالہ مقررہ مدت پوری ہونے پر ریٹائر ہوجائیں گے۔ (ان سے پہلے ڈگلس گریسی، ٹکا خان ، اسلم بیگ اور جنرل وحید کاکڑ کی مثالیں موجود ہیں) جتنے بھی جنرلوں نے مارشل لاءلگایا ان سب نے اپنے عہدے میں خود ہی توسیع بھی کرلی، بلکہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل ضیا الحق کو تو صدر ضیا الحق نے تین بار توسیع دیکر ریکارڈ قائم کردیا۔ جنرل محمد موسیٰ اور جنرل اشفاق پرویز کیانی دو ایسی مثالیں ہیں جنہیں حکومتِ وقت نے بخوشی توسیع دی۔ دو جنرلوں فرینک میسوری اور جنرل گل حسن کو مدت پوری ہونے سے پہلے جبراً ریٹائر کیاگیا ، ایک جنرل آصف نواز کا اپنے عہدے پر رہتے ہوئے انتقال ہوا اور ایک جنرل جہانگیر کرامت کو مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی استعفیٰ دینا پڑا۔ باقی دنیا میں مسلح افواج کے سربراہوں کی تقرری، توسیع و ریٹائرمنٹ حکومت وقت کا ناقابلِ تقسیم اختیار سمجھا جاتا ہے۔ مگر پاکستان کی بات الگ ہے۔بات الگ ہونی بھی چاہئے کیونکہ آدھا وقت تو اس ملک پر فوج نے براہِ راست اور باقی وقت بلاواسطہ حکمرانی کی ہے۔ صدرِ مملکت اور وزیراعظم کے عہدے بظاہر آئینی لحاظ سے جتنے بھی پروقار سہی مگر پاکستان میں سب سے طاقتور عہدہ بری فوج کے سربراہ کا ہی سمجھا جاتا ہے۔ میجر محمد شریف کے صاحبزادے اور میجر شبیر شریف (نشان حیدر) کے بھائی سے یہی امید تھی۔ امید ہے جنرل صاحب اگلے دس ماہ کے دوران بھی موسمی قصیدہ خوانوں کے دباﺅ کا مقابلہ اسی کھلے پن اور ثابت قدمی سے کریں گے۔ دوسری طرف آرمی چیف راحیل شریف کی مدت ملازمت میں تو سیع نہ لینے کی خبر کو ملکی اور غیر ملکی میڈیا نے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ کے ٹوئٹ کے بعد ملکی اور غیر ملکی میڈیا خبر کو بریکنگ نیوز کے طور پر مسلسل نشر کرتے رہے پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز نے پورا پورا نیوز بلیٹن اس خبر پر جاری رکھا۔ ٹی وی چینلز پر مختلف سیاست دانوں اور تجزیہ نگاروں نے تجزیے پیش کئے۔