اسلام آباد( نیوز ڈیسک) جماعت اسلامی جس نے لاہور میں ایک قومی اور ایک صوبائی سیٹ کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کے امیدواروں کی حمایت کا اعلان کیا ہے نے گزشتہ 3 انتخابات میں ان حلقوں میں امیدوار کھڑے نہیں کئے۔ جماعت اسلامی نے 2002ء، 2008ء اور 2013ء کے انتخابات میں این اے 122 اور پی پی 147 میں اپنے امیدوار کھڑے نہیں کئے تھے۔ اس سے جماعت کی ان حلقوں میں دلچسپی کا اظہار ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدواروں کیلئے جماعت اسلامی کی حمایت کس قدر اہم ہوگی۔ 11 اکتوبر کے اہم ترین مقابلے میں آیا جماعت اسلامی کا تعاون پی ٹی آئی کے کام آئے گا یا نہیں لیکن اول الذکر کا موخر الذکر کا ساتھ دینے کا اصل مقصد آئندہ آنے والے بلدیاتی انتخابات میں لاہور میں خاطر خواہ حصہ وصول کرنا ہے۔ اس حوالے سے جماعت اسلامی پی ٹی آئی سے اپنے مطالبات منوانے میں خاطر خواہ کامیاب رہی ہے۔جنگ رپورٹر طارق بٹ کے مطابق جماعت اسلامی لاہور کے امیر میاں مقصود جنہوں نے پی ٹی آئی کے رہنما چوہدری سرور سے ضمنی الیکشن کے حوالے سے معاہدے پر بات چیت کی۔ بعد ازاں کہا کہ آنے والے مقامی حکومتوں کے انتخابات کے حوالے سے ہمارے تحفظات پی ٹی آئی کے وفد نے دورکردئیے ہیں اور اسی بنا پر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ” ہماری مکمل توجہ بلدیاتی (لوکل) انتخابات پر ہے جس کیلئے ہم نے پی ٹی آئی کو مشترکہ حکمت عملی کیلئے دعوت دی جو انہوں نے قیول کرلی“۔ چوہدری سرور نے کہا کہ پی ٹی آئی کی جماعت کی قیادت کے ساتھ 3 ملاقاتیںہوئیں اور ان کے تحفظات دور کردئیے گئے۔ ان کی پالیسی کے تحت جماعت ان حلقوں میں نمائندوں کی حمایت کرتی ہے جہاں ان کا ووٹ بینک اس قدر ہے کہ وہ کامیابی میں مدد دے سکتا ہے ، یہ معلوم نہیں کہ عام انتخابات میں تمام قومی اور صوبائی سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرے گی یا نہیں۔ تاہم این اے 122 اور پی پی 147 میں گزشتہ 3انتخابات میں امیدوار کھڑے کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہاں اس کے ووٹرز نہیں ہیں، کم ہی سہی لیکن ہیں ضرور۔ 2002ء میں مسلم لیگ ن کے امیدوار ایاز صادق نے این اے 122 میں 37531 ووٹ لیکر عمران خان کو شکست دی تھی جنہوں نے 18638 ووٹ حاصل کئے تھے۔ پی پی کے امیدوار چوہدری غلام قادر 17561 ووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر رہے جبکہ ق لیگ چوہدری امین 12605 ووٹوں کے ساتھ چوتھے نمبر رہے تھے۔2008ئ میں ایاز صادق نے 79056 ووٹ حاصل کرکے پی پی کے عمر مصباح الرحمن کو شکست دی تھی جنہوں نے 24963 ووٹ لئے تھے جبکہ ق لیگ کے چوہدری جہانگیر نے 10652 ووٹ حاصل کئے تھے۔ 2013ئ میں ایاز صادق نے 93389 ووٹ حاصل کئے اور پی ٹی ا?ئی کے چیئرمین عمران خان نے 84517 ووٹ حاصل کئے تھے۔ پی پی 147 میں 2012ئ میں ایاز صادق 16210 ووٹوں کے ساتھ کامیاب رہے جبکہ پی پی کے بشیر چاند 9573 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر رہے جبکہ ق لیگ کے ڈاکٹر ناصر نے 7733 ووٹ حاصل کئے۔ 2008ء میں ن لیگ کے محسن لطیف نے 29820 ووٹ حاصل کئے۔ پی پی کے اعجاز قیوم بٹ 9784ووٹوں کے ساتھ دوسرے ، ق لیگ کے علیم خان ( اب پی ٹی آئی کے امیدوار برائے این اے 122) 9493 وووٹوں کے ساتھ تیسرے نمبر پر تھے۔ 2013ءکے پارلمانی انتخابات میں ن لیگ کے محسن لطیف نے 36781 ووٹ لیکر کامیابی حاصل کی جبکہ پی ٹی آئی کے شعیب صدیقی نے 30174 ووٹ حاصل کئے تھے۔ پی ٹی آئی نے اب بھی اس حلقے میں شعیب صدیقی کی حمایت کی ہے۔ این اے 122 اور پی پی 147 میں جماعت اسلامی کے ووٹوں کی تعداد سے قطع نظر ن لیگ نے ان کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور پی ٹی آئی کو موقع دیدیا۔ اس کی ایک اغلب وجہ یہ تھی کہ جماعت اسلامی کے مطالبات ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں اور ن لیگ کو اس حوالے سے زیادہ تجربہ ہے۔ دوسرا یہ کہ یہ لاہور میں بلدیاتی انتخابات میں زیادہ حصہ داری نہیں کرنا چاہتی کیونکہ اس کا خیال ہے لاہور میں اس کا اثرورسوخ بہت زیادہ اور تنہا ہی مخالفین کو شکست دیدے گی۔ پی ٹی آئی ہمیشہ انتخابی اتحاد بنانے کی مخالفت رہی ہے کیونکہ اس کا خیال ہے کہ اس کو بہت زیادہ مقبولیت حاصل ہے اور اس کو کسی سیاسی جماعت کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سب جماعتوں کو بے کار تصور کرتی ہے لیکن لاہور کے ضمنی الیکشن میں کسی بھی جماعت کی حمایت حاصل کرنے کیلئے مری جارہی ہے۔ اس نے قبل ازیں مجلس وحدت مسلمین اور جے یو پی (نیازی گروپ) کی تعاون بھی حاصل کرلیا ہے اگرچہ یہ دونوں جماعتیں کاغذی ہیں اور ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے