اگر اس رپورٹ کی ڈسکشن دیکھی جائے تو 982ارب روپے شاید صرف 82ارب روپے رہ جائیں، جس رپورٹ کا ذکر میڈیا میں ہورہا ہے وہ پیپلز پارٹی کے آخری مالی سال2012-13ء کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نندی پور پاور پراجیکٹ کا 58ارب روپے کا پی سی ون منظور ہوا جس میں سے 49 ارب روپے خرچ ہوچکے ہیں،اب ہمارے پاس 9ارب روپے باقی رہ گئے ہیں، میڈیا نندی پور پراجیکٹ کے حوالے سے 88ارب روپے کی جو رقم بتارہا ہے وہ غلط ہے، جو لوگ یہ رقم بتارہے ہیں وہ بددیانتی کررہے ہیں یا یہ ان کی لاعلمی یا ناسمجھی ہے۔ خواجہ آصف نے بتایا کہ نندی پور کا پی سی ون جنوری 2013ء میں پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں منظور ہوا، اس پراجیکٹ کی لاگت 22ارب روپے سے بڑھ کر 58ارب روپے پیپلز پارٹی کی حکومت میں ہوئی، ٹھیکیداروں نے نندی پور پراجیکٹ جون میں ہمارے حوالے کرنا تھا، اس سے دو تین مہینے پہلے پتا چل گیا تھا کہ پراجیکٹ کا فلٹریشن پلانٹ چھوٹا لگا ہوا ہے ، یہ تبدیل ہوجائے گا تو سب ٹھیک ہوجائے گا، نندی پور پراجیکٹ میں معمولی سی تاخیر کے علاوہ کوئی بے قاعدگی نہیں ہوئی۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جسٹس (ر) ناصرا سلم زاہد، فرگوسن اور آڈیٹر جنرل نندی پور پراجیکٹ کا آڈٹ کررہے ہیں، جب تک تمام اداروں کی تسلی نہیں ہوتی ہم حاضر ہیں اور ہماری گردن بھی حاضر ہے۔ وفاقی وزیر پانی و بجلی کا کہنا تھا کہ پبلک اکائونٹس کمیٹی سب سے بڑا احتسابی ادارہ ہے، این ایل سی اسکینڈل پبلک اکائونٹس کمیٹی نے اٹھایا تھا جس میں دو تین جنرلوں کو سزائیں بھی ہوئیں ، جنرلوں کیخلاف یہ کارروائی ان کے ادارہ نے کی تھی، ان جنرلوں کیخلاف ابھی بھی فوجداری کارروائی کی جاسکتی ہے، نیب کو اس معاملہ کا نوٹس لینا چاہئے، نیب کو selective کارروائیاں نہیں کرنی چاہئیں، رائل پام اسکینڈل یا ریلوے انجن خریدنے میں ملوث لوگوں کیخلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے چاہے وہ سیاستدان ہو، جنرل ہو یا بیوروکریٹ ہو، اس وقت کسی کو استثنیٰ نہیں ہونا چاہئے، کرپشن ہر شخص اور ادارے میں سرایت کرگئی ہے۔