جمعہ‬‮ ، 10 جنوری‬‮ 2025 

اردو کے بطور سرکاری زبان نفاذ کی راہ میں بیوروکریسی رکاوٹ بن گئی، حکومت بھی سست

datetime 14  ستمبر‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(نیوز ڈیسک) اردو کو سرکاری زبان کے طور پرنافذ کرنے کی راہ میں بیوروکریسی رکاوٹ بن چکی ہے جبکہ حکومت بھی سست روی کا شکار ہے۔ایک جانب تو مخصوص حلقے اردو زبان کے بطور سرکاری و دفتر ی زبان نفاذ کے خلاف سرگرم ہوگئے ہیں، دوسری جانب حکومت نے قومی زبان اردو کو دفتری و سرکاری زبان کے طور پر نفاذ کیلئے سپریم کورٹ کے8 اگست کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے جو اقدامات اٹھائے ہیں وہ عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہیں۔ جنگ رپورٹر احمد نورانی کے مطابق کابینہ ڈویڑن نے اس ضمن میں ابھی تک کسی بھی قسم کی مشاورت کیلئےادارہ فروغ قومی زبان( این ایل پی ڈی )سے رابطہ نہیں کیا۔ پاکستان کی 80فیصد سے زائد ا?بادی انگریزی نہیں سمجھتی اس لیے وہ ناصرف قومی ترقی کا حصہ بننے سے محروم ہے، بلکہ سرکاری مراسلات سمجھنے سے بھی قاصر ہے۔ یونیسکو سمیت تمام اس سلسلے میں ہونیوالے تحقیقات سے ثابت ہوا ہےکہ عمومی سطح پر سمجھی جانیوالی بنیادی زبان کو بنیادی اہمیت دے کرہی بہترین تعلیم دو یا اس سے زائد زبانوں میں دی جاسکتی ہے۔ اس بنیادی اور فطرتی اصول پر عمل پیرا نہ ہونے سے عمومی سطح پر تخلیقی سوچ اور طرزفکر کا گلا گھٹ جاتا ہے۔ دوسری جانب مقامی او ر بین الاقوامی میڈیا نے ملک میں اردو کے ممکنہ نفاذ کے خلاف مہم چلانا شروع کردی ہے۔ اردو کے عملی نفاذ سے کئی مشکلات سامنے آنے کے دلائل پیش کیے جانے شروع کردیئے گئے ہیں اور بین الاقوامی میڈیا نے تو اردو کے نفاذ کو نسلی رنگ دینے کی کوششیں بھی شروع کردیں ہیں تاکہ پورے معاملے کو ہی متنازع بنادیا جائے۔ یہ بنیادی تاثر دیا جارہاہےکہ اردو کے نفاذ سے انگریزی بالائے طاق ہوجائیگی اور پاکستانی بیرونی دنیا کے ساتھ تمام ابلاغ کے ضمن میں محروم ہوجائینگے۔ اردو کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے کیلئے کام کرنے والوں کے مطابق انگریزی کو نہ ہی بالائے طاق یا ختم کیا جارہاہے اور نہ ہی ایسا کیا جاسکتا ہے کیونکہ انگریزی بین الاقوامی اور سائنس و ٹیکنالوجی کی زبان ہے۔ ماہرین لسانیات کاکہنا ہےکہ اردو کو سرکاری زبان بنانے کا انگریزی کو ختم کیے جانے سے کوئی تعلق نہیں ہے کیونکہ تمام سطحوں پر یہ نصابات کا اہم حصہ رہے گی۔ این ایل پی ڈی کے سابق سربراہ اور معروف ماہر لسانیات فتح محمد ملک نے دی نیوز سے بات کرتے ہوئےکہاکہ اردو کو حقیقی معنوں میں قومی زبان بنانے اور اس کے بنیادی زبان کے طور پر مطالعے سے لوگوں کی انگریزی کے حوالےسے سمجھ بوجھ اور اہلیت میں اضافہ ہوگا۔ فی الوقت لوگوں کی وہ اکثریت جوکہ نچلے معیار کی انگریزی بول سکتے ہیں یا لکھ سکتے ہیں ،یہ اس لیے ہےکیونکہ انہیں انکی بنیادی زبان کے ادب پر عبور حاصل نہیں ہے اور اس لیے وہ بہترین انداز میں انگریزی کبھی نہیں سیکھ سکتے۔ اردو کے دفتری و سرکاری زبان کے نفاذ کے حوالےسے مقامی میڈیا کی جانب سے ایک اور دلیل دی جارہی ہے کہ ایسی صورت میں زیادہ تر آئی ٹی سے متعلق منصوبے، سافٹ ویئر ز اور ڈیٹا بیس بشمول وفاقی و پنجاب حکومت کی جانب سے اراضی ریکارڈ کو کمپیوٹرائزڈ بنانے کے منصوبے فضول ہوجائینگے۔ دوسری جانب پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ (پی آئی ٹی بی) کے سربراہ عمر سیف جوکہ اس قسم کے منصوبوں کے خالق ہیں، انہوں نے قومی اخبار کو بتایاکہ یہ کہنا غلط ہے کہ اردو کے نفاذ سے ان کے محکمے کا کوئی بھی منصوبہ فضول ہوجائیگا، یا اس میں کسی بھی قسم کی مشکل درپیش ہوگی۔ لینڈ ریکارڈ کی کمپیوٹرائزیشن سو فیصد اردو میں ہے۔ کچھ سافٹ وئیر اور ایپلی کیشنز جوکہ اندرون خانہ استعمال کیلئے ہیں ، ان کا سپریم کورٹ کے فیصلے کے نفاذ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے بتایاکہ ان کا محکمہ تمام قوانین کے اردو میں ترجمے کیلئے کام کررہا ہے اور اس ضمن میں 70فیصد کام مکمل ہوچکا ہے، اور ان کا محکمہ تمام سرکاری ویب سائٹس کو اردو میں تبدیل کرنے کیلئے بھی کام کررہا ہے جوکہ جلد مکمل ہوجائیگا۔ اب یہ واضح ہے کہ ان ویب سائٹس کے انگریزی ورڑنز برقرار رہینگے تاہم عام افراد کی آسانی کیلئے یہ ویب سائٹس اردو میں بھی ہونگی۔ اس کے باوجود اردو کی مخالفت کرنے والے لوگوں کا مسئلہ یہ ہےکہ وہ انگریزی کوہی ذریعہ ابلاغ کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، اور وہ اس کی پروا نہیں کرتے کہ عام لوگ اسے نہیں سمجھتے۔ ماہرین لسانیات کاکہناہےکہ بنیادی زبان کی عوام کے ساتھ منسلک اہمیت کا اندازہ یہاں سے لگایا جاسکتا ہےکہ ، جیو، جنگ گروپ، ڈان میڈیا گروپ اور ایکسپریس کامیابی کے ساتھ انگریزی چینل کھولنے میں ناکام رہے کیونکہ عوام باآسانی اپنی قومی زبان ہی سمجھتے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہےکہ اردو کے سرکاری زبان کے طور پر نفا ذ سے وہ افراد بھی اردو کے استعمال پر مجبور ہوجائینگی جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے، جیساکہ پشتوبولنے والے۔تاہم پروفیسر فتح ملک کاکہناہےکہ اس وقت جولوگ پنجابی، سندھی ، سرائیکی، پشتو، بلوچی یا ہندکو بولتے ہیں، وہ نہ صرف ایک دوسرے سے اردو میں بات کرتے ہیں بلکہ اپنی قومی زبان کو بخوبی سمجھتے ہیں اور اردو کو اپنی ہی زبان سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ احمد فراز ، فارغ بخاری،خاطر غزنوی،محسن احسان کی مادری زبان پشتو تھی لیکن یہ سب اردو کے عظیم شعراءتھے۔جب مفتی محمودجوکہ ایک پختون تھے، وہ خیبر پختو نخو ا (اس وقت این ڈبلیو ایف پی) کے وزیر اعلیٰ بنے تو انہوں نے اردو کو صوبے کی سرکاری زبان بنانے کا حکم دیا۔ میر غوث بخش بزنجو نے بھی بلوچستان میں ایسی کوششیں کیں۔ انہوں نےکہاکہ اردو کے نفاذ کو نسلی رنگ دینی کی تمام کوششوں کا مقصد عوامییکجہتی کے اس عمل کو روکنا ہے۔ حالیہ اقدام سے انگریزی کے خاتمے کی سازش کے حوالےسے انہوںنے انگریزی کی بطور زبان تعلیم میں مزید بہتری کی ضرورت پر زور دیا، کیونکہ اس کی بہت اہمیت ہے۔ انہوں نےکہاکہ انگریزی کے بطورزبان مطالعے اور مختلف علوم کا انگریزی میں مطالعہ کرنا دو بالکل مختلف چیزیں ہیں، اور ایک دوسرے سے ملادیتی ہیں۔ انہوں نےکہاکہ اگر وہ 5 انگریزی اخبارات کا روزانہ مطالعہ کریں تو بھی انہیں بین الاقوامی اور مقامی واقعات کا جامع ادراک نہیں ہوسکتا۔ یہاں تک کہ مختلف انگریزی اخبارات کیلئے لکھنے والے سینئر صحافی بھی یہ کہا کرتے تھےکہ انہیں انگریزی کے تمام اخبارات پڑھ کر اتنی معلومات نہیں ملتیں جتنی کہ صرف قومی اخبار پڑھ کر مل جاتی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 251 میں واضح ہےکہ صوبے اپنی علاقائی زبانوں میں اپنے نصاب ترتیب دے سکتے ہیں۔ بی بی سی کی جانب سے 12ستمبر کو دی جانیوالی خبر کے مطابق پاکستان میں 48فیصد افراد کی مادری زبان پنجابی، 12فیصد کی سندھی، 10فیصد کی سرائیکی، 8 فیصد کی پشتو ، 8 ہی فیصد کی اردو اور 3 فیصد کی بلوچی زبان ہے۔ تاہم عوام کی اکثریت اپنے گھروں پر اردو بولتے ہیںاور اسے بخوبی سمجھتے بھی ہیں، اور ایک دوسرے کے ساتھ بچپن ہی سے وہ اردو میں بات کرتے ہیں، اور بچوں کی بنیادی تعلیم کیلئے ان زبانوں کو پرائمری کی سطح پر اختیار کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک کاکہنا ہےکہ اردو کے قومی زبان کے نفاذ میں بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ بڑی رکاوٹ ہیں۔ حکمرانوں کے ہر طرف ایسے افراد ہیں اور یہ انہیں آزادانہ طور پر فیصلے نہیں کرنے دیتے ، بنیادی مسئلہ حکمرانوں کی خواہش اور خلوص ہے۔ ایک اور دلیل یہ بھی جاتی ہےکہ پٹو ار ی، تحصیل دار، ماتحت عدالتوں اور پولیس اسٹیشنز میں اردو رائج ہے لیکن عام لوگ اسے سمجھ نہیں پاتے۔ ماہرین لسانیات کا کہنا ہےکہ اردو کو ہمارے نصاب میں بطور بنیادی زبان کے اہمیت نہ دیا جانا اس کی وجہ ہے۔ اگرتمام مضامین کی اصطلاحات کو ہمارے نصاب میں شامل کردیا جائے تو ہر کوئی انہیں سمجھ سکے گا۔ اس وقت این ایل پی ڈی کے سربراہ جمال ناصر ہیں ، وہ پختون ہیں اوران کا تعلق قبائلی علاقہ جات سے ہے۔ ان کاکہنا ہےکہ ان کا محکمہ تمام سطحوں پر اردو کے بطورسرکاری زبان نفاذ کیلئے پوری طرح اہل ہے ، اس ضمن میں تمام پہلووں پر تحقیق کا کام مکمل کیا جاچکاہے۔ ماہرین کاکہنا ہےکہ جرمنی، فرانس، چین اور جاپان نے من حیث القوم اپنے بچوں کو قومی زبان میں تمام علوم کی تعلیم دے کر ہی ترقی کی۔ واضح رہےکہ آج بھی یورپ میں انگریزی آبادی کی اکثریت کی زبان نہیں ہے۔ اردو کے نفاذ کیلئے کام کرنےوالے ماہرین کاکہنا ہےکہ وزیر اعظم کو سمجھنا چاہیےکہ ڈی ایم جی بیوروکریٹس، وزارت اطلاعات اور ان کے قریبی افراد کی رائے ہی حتمی طور پر اعلیٰ درجے کی نہیں ہوتی اور انہیں کسی نتیجے پر پہنچنے کیلئے متعلقہ ماہرین، اعلیٰ ادبی شخصیات،ماہرین لسانیات، پروفیسرز، معروف سیاستدانوں، بین الاقوامی ماہرین لسانیات اور یونیسکو کے متعلقہ ماہرین سے بھی مشاورت کرنی چاہیے۔



کالم



آپ افغانوں کو خرید نہیں سکتے


پاکستان نے یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز…

صفحہ نمبر 328

باب وڈورڈ دنیا کا مشہور رپورٹر اور مصنف ہے‘ باب…

آہ غرناطہ

غرناطہ انتہائی مصروف سیاحتی شہر ہے‘صرف الحمراء…

غرناطہ میں کرسمس

ہماری 24دسمبر کی صبح سپین کے شہر مالگا کے لیے فلائیٹ…

پیرس کی کرسمس

دنیا کے 21 شہروں میں کرسمس کی تقریبات شان دار طریقے…

صدقہ

وہ 75 سال کے ’’ بابے ‘‘ تھے‘ ان کے 80 فیصد دانت…

کرسمس

رومن دور میں 25 دسمبر کو سورج کے دن (سن ڈے) کے طور…

طفیلی پودے‘ یتیم کیڑے

وہ 965ء میں پیدا ہوا‘ بصرہ علم اور ادب کا گہوارہ…

پاور آف ٹنگ

نیو یارک کی 33 ویں سٹریٹ پر چلتے چلتے مجھے ایک…

فری کوچنگ سنٹر

وہ مجھے باہر تک چھوڑنے آیا اور رخصت کرنے سے پہلے…

ہندوستان کا ایک پھیرا لگوا دیں

شاہ جہاں چوتھا مغل بادشاہ تھا‘ ہندوستان کی تاریخ…