کراچی(نیوزڈیسک)پیر کے روز پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے لندن سے جاری کیے جانےوالے ایک بیان کے ذریعے پیپلزپارٹی کا مقدمہ پیش کیا ، جب سے ن لیگ نے 2013کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور نوازشریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ، اس وقت سے ایسا پہلی مرتبہ ہوا کہ انہوں نے ن لیگ پر تنقید کی ہو، اس بحران کی وجہ کیا ہے اور پیپلزپارٹی کا مقدمہ کتنا مضبوط ہے؟ اس کا جواب یہ ہےکہ زرداری نے تنقیدی حملہ اس وقت کیا جبکہ منگل کے روز آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کی اور اس میں یہ فیصلہ ہوا کہ کراچی آپریشن میں’ سیاسی مداخلت‘ برداشت نہیں کی جائےگی۔ اس بات کا فیصلہ ایک سال پہلے اس وقت ہوا تھا جب وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثارعلی خان اور وزیراعظم نوازشریف کے تعلقات کشیدگی کا شکار تھے ، امن و امان اور قومی سلامتی سے متعلق اعلیٰ سطح اجلاسوں میں ان کی غیر موجودگی کو محسوس کیا گیا۔ ذرائع نے انکشاف کیا ہےکہ وزیراعظم نواز شریف پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کے ساتھ کسی بڑے تنازع میں پڑنا نہیں چاہتے تھے ، جس میں نیب کیسز کو دوبارہ کھولنا بھی شامل ہے، روزنامہ جنگ کے تجزیہ کارمظہرعباس کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے مطابق کیونکہ وہ تحریک انصاف کے چیئرمین کے دھرنے کے باعث بہت دباؤ میں تھے۔ دوسری جانب چوہدری نثار نہیں چاہتے کہ ان کی وزارت کے تحت نیب سمیت کوئی بھی ادارہ کسی دباؤ میں شکار ہو۔ وہ بھی سیاسی انتقامی کارروائی کے خلاف تھے لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی چاہتے تھےکہ بدعنوانی کے ایسے کیسز جس میں بااثر ملوث ہوں، انہیں نہ دبایا جائے۔ ایک مرتبہ تو شاہ رخ جتوئی کے کیس میں انہوںنے پیپلزپارٹی کے ایک معروف رہنما کی جانب سے کی جانےوالی درخواست مسترد کی تھی اور ایف آئی اے پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا تھا۔ اس کی اور بھی چند وجوہ ہیں کہ انہیں اعلیٰ سطح اجلاسوں میں سے کیوں دور رکھا گیا ، لیکن پھر وہ اسی وقت ان میں شامل ہونا شروع ہوئے جب وزیراعظم، وزیرداخلہ سے متفق ہوئے کہ نیب اور ایف آئی اے کو ’فری ہینڈ‘ دیا جانا چاہیے۔ موجودہ بحران کی اور بھی وجوہ ہیں، دہشت گردی کی مالی معاونت سے متعلق ایک انتہائی خفیہ رپورٹ میں پیپلزپارٹی کے کچھ رہنماؤں پر شبہ ظاہر کیا گیا ، بالخصوص فشریز کے کچھ افسران کی گرفتاری کے بعد۔ رینجرز نے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھار ٹی(ایس بی سی اے ) پر چھاپہ مارا ، جس کے باعث بھی تنازع کھڑا ہوا اور سندھ حکومت نے رینجرز کی حدود کے حوالےسے ایک سخت بیان دیا،تاہم اس مسئلے پر قابو پایا گیا اور اپیکس کمیٹی کا اجلاس بلایا گیا۔ ڈی جی رینجرز میجرجنرل بلال اکبر نے بریفنگ دی اور سندھ حکومت کو ان افسران کے خلاف کارروائی کا کہا گیا ، جن کے نام بریفنگ میں شامل تھے۔ ایک اجلاس کے ایک ہفتے بعد رینجرز نےسخت الفاظ پر مشتمل پریس ریلیز جاری کی،جس میں پہلی مرتبہ دہشت گردی کی مالی معاونت اور 230ارب روپےکی غیر قانونی وصولی کے معاملے سےسنسنی پیدا ہوئی ، اس پریس ریلیز میں بلاول ہاؤس اور پی پی پر بھی انگلیاں اٹھیں۔ کراچی میں نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی کے تحت ہونےوالے سیمنار میں کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کی تقریر نے تقریباً وہ ماحول پیدا کردیا، جس کے تحت کراچی آپریشن نئی کروٹ لینے والا تھا ۔ دوسری جانب آپریشن کے کپتان وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اپنی ہی پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے دباؤ پر خوش نہیں تھے اور بسااوقات انہوں نے ترقیوں، تبادلوں اور تعیناتیوں کے معاملے میں خود کو لاچار محسوس کیا۔یہ افسوس کی بات ہےکہ کپتان پر بدعنوانی کا ایک بھی الزام عائد کیا گیا اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی انکوائری ہوئی، لیکن ان کی نصف ٹیم کوتحقیقات کا سامنا ہے ، جس کے تحت کچھ سیکریٹریوں اور مختلف محکموں کے ڈائر یکٹرزبھی گرفتار ہوئے۔ لہٰذا ایک طرح سے 80سالہ وزیر اعلیٰ ایجنسیوں اور اپنی پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان سینڈوچ بن گئے ہیں۔ جب پہلی مرتبہ سندھ حکومت نے یہ موقف اختیار کیاکہ رینجرز کو سرکاری اداروں پر چھاپے مارنے کا کوئی اختیار نہیں ہے تو اسٹیبلشمنٹ نے ایف آئی اے اور نیب کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ تیسری وجہ وزیراعظم نوازشریف کا دورہ کراچی تھی ، جس میں انہوں نے ایف آئی اے کو وزیراعلیٰ کے خدشات دور کرنے کی ہدایت کی تھی۔ وزیراعظم کے دورے کے بعد یہ عمومی تاثر تھاکہ انہوں نے وفاقی ایجنسی کو ہدایات دی ہیں کہ پیپلزپارٹی کے خلاف بہت آگے تک نہ جایا جائے،تاہم ایف آئی اے کے افسران نے وزیر اعلیٰ سندھ کے ساتھ کوئی ملاقات نہیں کی ۔ ان کے دورے کے چند روز بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کراچی آپریشن کے حوالےسے ایک اہم اجلاس کی صدارت کی،جس میںانہوں نےناصرف آپریشن کےجاری رہنے کی یقین دہانی کرائی بلکہ پہلی مرتبہ بدعنوانی کا لفظ بھی استعمال ہوا۔ جبکہ پیپلزپارٹی کے کچھ رہنما بشمول آصف زرداری کی طاقتور بہن فریال تالپور ، ڈاکٹر عاصم حسین ، اویس مظفر و دیگر نے زمینی حالات کے بارے میں کپتان کی رائے طلب کی۔ ذرائع کاکہنا ہےکہ وزیر اعلیٰ سندھ اور وزیر داخلہ سندھ نے اپنے ذرائع کا حوالہ دے کرکہا کہ ایجنسیاں فریال تالپور یا پی پی کے بڑے رہنماؤں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کریںگی، لیکن شاید کپتان صورتحال سے مکمل طور پر آگاہ نہیں تھے اور ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر آصف زرداری اور فریال تالپور وزیراعلیٰ پر سیخ پا ہوگئے ۔ آصف زرداری پوری طرح اب قائل ہوچکے ہیںکہ موجودہ زمینی صورتحال میں ان سمیت پی پی کے دیگر اعلیٰ رہنما پوری طرح محفوظ نہیں ہیں۔ انہیں پی پی کے خلاف کرپشن کیسز کے حوالےسے ایف آئی اے کو زیادہ متحرک کیے جانے کا شک وفاقی وزیر داخلہ پر ہے ۔ پیپلزپارٹی کے ذرائع کاکہنا ہےکہ پارٹی کے شریک چیئرمین کے پاس بہت کم راستے بچے ہیں کیونکہ نہ ہی وہ کراچی آپریشن رکواسکتے ہیں اور نہ ہی اپنے حالیہ بیان کے بعد فوج کے کردار پر تنقید کرسکتے ہیں، جس کی انہیں بھاری قیمت اٹھانا پڑی تھی۔ آرمی چیف کی جانب سے واضح کردیا گیا ہےکہ اگر کراچی آپریشن کو بلاتفریق رکھنا ہے اور اگر کچھ افسران یا پیپلزپارٹی کے رہنما دہشت گردی کی مالی معاونت میں ملوث ہوں یا بڑے پیمانے پر بدعنوانی میں ملوث ہوں تو لازمی طور پر کارروائی کی جانی چاہیے۔ آصف زرداری کا مقدمہ یہ ہےکہ پیپلزپارٹی کے رہنماؤں اور سندھ کی بیوروکریسی کو ہراساں کیا جارہا ہے ، اس کے علیل رہنما مخدوم امین فہیم اور سابق وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی کو گرفتاری کے وارنٹ کا سامنا ہے اور قاسم ضیاء اور ڈاکٹر عاصم تحویل میں ہیں۔ پیپلزپارٹی کا مقدمہ یہ ہےکہ ایف آئی اے اور نیب نے صرف سندھ کو ہی کیوں نشانہ بنایا؟ آصف زرداری نے ان تمام اقدامات کو 90کی دہائی کی سیاست کی واپسی قرار دیا، انہوں نے کہاکہ ’ میرے خیال میں میاں صاحب نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا؟ انہوں نے ن لیگ کے خلاف کیسزیادکرائےاور پوچھاکہ اصغرخان کیس اور سانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل کمیشن رپورٹ کی تحقیقات کیوں نہیں کی گئی اور ان کے خلاف کیسز کو کیوں دوبارہ نہیں کھولا گیا۔ یہ مطالبات غلط نہیں ہیں اور ایف آئی اے کو چاہیے کہ وہ اصغرخان کیس میں تیزی سے کام کرے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن کے کیس میں بھی عملدرآمد ابھی تک نہ ہوسکا۔ لیکن کیاآصف زرداری ان مطالبات کو منوانا چاہتے ہیں یا سندھ کے معاملے میں سمجھوتے کے خواہاں ہیں ،جہاں کرپشن اوراربوں روپے کی دہشت گردی کی مالی معاونت کی ہزاروں فائلیں اب کھل چکیں ہیں اور انکے بند ہونے کا امکان نہیں ہے۔ پاکستان میں پیپلزپارٹی سے زیادہ قربانیاں کسی جماعت نے نہیں دیں اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں، لیکن آج پیپلزپارٹی کا تشخص جس قدر داغدار ہوچکا ہے ، اس کے دفاع کےلیے محض یہ دلیل کافی نہیں ہے۔ اربوں روپے کی بدعنوانی کے الزامات ہیں اور جنہیں پارٹی کے کچھ اندرونی حلقے محض الزامات نہیں سمجھتے۔ پیپلزپارٹی کےبانی ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل ہوا، انکا دوراچھے اور برے فیصلوں کے باعث متنازع رہا لیکن انکے بدترین مخالفین نے بھی ان پر کبھی بدعنوانی کا الزام عائد نہیں کیالیکن اسکے برخلاف پیپلزپارٹی کے موجودہ شریک چیئرمین سے لے کر اس کے دو وائس چیئر مین بشمول سابق وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کو سیاسی انتقام کے نہیںبلکہ بدعنوانی کے مقد ما ت کا سامنا ہے۔ پارٹی کے مخلص رہنماؤں کاالمیہ یہ ہے کہ ان کے ذہنوں میں بھٹو کے دورکی اچھی یادیں تازہ ہیں، وہ ہمیشہ پیپلز پارٹی کا دفاع کرنے کو فخر سمجھتے ہیں لیکن پٹارینز کا دفاع کرنے کو تیار نہیں ہیں(جوکہ آصف زرداری کے دنوں میں پٹارو کالج جامشورو سے پاس ہوئے)
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں