منگل‬‮ ، 25 ‬‮نومبر‬‮ 2025 

قصور میں بچوں سے زیادتی کے ملزم کی ضمانت منظور

datetime 18  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور ہائی کورٹ نے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کے معاملے کے ملزم تنزیل الرحمان کی عبوری ضمانت منظور کر لی ہے۔عدالتِ عالیہ نے 31 اگست تک کے لیے تنزیل الرحمان کی ضمانت منظور کی ہے۔تنزیل الرحمان ان 15 افراد میں شامل ہیں جن کے خلاف قصور کے گاو¿ں حسین والا میں بچوں سے مبینہ جنسی زیادتی کے الزام میں مقدمات درج ہیں۔اس معاملے میں 13 افراد اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ تنزیل نے عبوری ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔تھانہ گنڈا سنگھ پولیس سٹیشن کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ مبینہ جنسی زیادتی کیس میں اب تک 18 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ادھر قصور کے گاوں حسین والا میں مقامی افراد نے بچوں سے مبینہ جنسی زیادتی کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا بائیکاٹ دوسرے دن بھی جاری رکھا ہے۔حسین خان والا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے بےگناہ افراد کے گھروں میں چھاپے مار کر نہ صرف انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے بلکہ ا±ن کے خلاف جھوٹے مقدمے بھی درج کیے گئے ہیں۔گاوں والوں کے بقول جب تک ان کے خلاف جھوٹے مقدمات کو ختم نہیں کیا جاتا وہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا بائیکاٹ جاری رکھیں گے۔حسین خان والا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے بےگناہ افراد کے گھروں میں چھاپے مار کر نہ صرف ا±نہیں ہراساں کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بھی درج کیے گئے ہیںمتاثرین کے وکیل لطیف سرا کا کہنا ہے کہ پولیس نے اپنے جائز حقوق کے لیے مظاہرہ کرنے والے 90 معلوم اور چار سو سے زائد نامعلوم افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر رکھا ہے ایسے میں گاو¿ں والے جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے۔وکیل کا کہنا ہے کہ یہ ایک نامکمل اور ادھوری جے آئی ٹی ہے کیونکہ اس میں فورینزک اور سائبر کرائم کے ماہر کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسی کئی جے آئی ٹی بن چکی ہیں جن کے کوئی نتائج سامنے نہیں آئے اور اب بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔وکیل کا کہنا ہے کہ اگر پولیس نے بے گناہوں کے خلاف درج مقدمات کو ختم نہ کیا تو گاو¿ں والوں کے پاس اِس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا ہے کہ وہ سیاسی کارکنوں ، سول سوسائٹی اور گاو¿ں کے رہائشوں کو اکٹھا کر کے لاہور کی طرف ایک لانگ مارچ کریں اور اِس سلسلے میں دینی، سیاسی اور این جی اوز کے ساتھ رابطے شروع کر دیے گئے ہیں۔لطیف سرا نے کہا کہ اگرچہ وہ متاثرین کے وکیل ہیں لیکن جے آئی ٹی انھیں تفتیش سے متعلق آگاہ نہیں کر رہی۔وکیل کا کہنا ہے کہ پولیس کی گاڑیاں گاوں کے چاروں طرف ایسے کھڑی ہیں جیسے یہ ایک غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہو۔متاثرین کے وکیل کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات پر جب مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈی آئی جی ابوبکر خدا بخش سے ردعمل لینے کی کوشش کی گئی تو بارہا کوشش کے باوجود ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



جنرل فیض حمید کے کارنامے(تیسرا حصہ)


ابصار عالم کو 20اپریل 2021ء کو گولی لگی تھی‘ اللہ…

جنرل فیض حمید کے کارنامے(دوسرا حصہ)

عمران خان میاں نواز شریف کو لندن نہیں بھجوانا…

جنرل فیض حمید کے کارنامے

ارشد ملک سیشن جج تھے‘ یہ 2018ء میں احتساب عدالت…

عمران خان کی برکت

ہم نیویارک کے ٹائم سکوائر میں گھوم رہے تھے‘ ہمارے…

70برے لوگ

ڈاکٹر اسلم میرے دوست تھے‘ پولٹری کے بزنس سے وابستہ…

ایکسپریس کے بعد(آخری حصہ)

مجھے جون میں دل کی تکلیف ہوئی‘ چیک اپ کرایا تو…

ایکسپریس کے بعد(پہلا حصہ)

یہ سفر 1993ء میں شروع ہوا تھا۔ میں اس زمانے میں…

آئوٹ آف سلیبس

لاہور میں فلموں کے عروج کے زمانے میں ایک سینما…

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964ء میں عجیب واقعہ پیش…

عدیل اکبرکو کیاکرناچاہیے تھا؟

میرا موبائل اکثر ہینگ ہو جاتا ہے‘ یہ چلتے چلتے…

خود کو ری سیٹ کریں

عدیل اکبر اسلام آباد پولیس میں ایس پی تھے‘ 2017ء…