منگل‬‮ ، 12 اگست‬‮ 2025 

قصور میں بچوں سے زیادتی کے ملزم کی ضمانت منظور

datetime 18  اگست‬‮  2015
ہمارا واٹس ایپ چینل جوائن کریں

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) لاہور ہائی کورٹ نے صوبہ پنجاب کے ضلع قصور میں بچوں سے جنسی زیادتی کے معاملے کے ملزم تنزیل الرحمان کی عبوری ضمانت منظور کر لی ہے۔عدالتِ عالیہ نے 31 اگست تک کے لیے تنزیل الرحمان کی ضمانت منظور کی ہے۔تنزیل الرحمان ان 15 افراد میں شامل ہیں جن کے خلاف قصور کے گاو¿ں حسین والا میں بچوں سے مبینہ جنسی زیادتی کے الزام میں مقدمات درج ہیں۔اس معاملے میں 13 افراد اس وقت پولیس کی حراست میں ہیں جبکہ تنزیل نے عبوری ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔تھانہ گنڈا سنگھ پولیس سٹیشن کے ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ مبینہ جنسی زیادتی کیس میں اب تک 18 مقدمات درج کیے جا چکے ہیں۔ادھر قصور کے گاوں حسین والا میں مقامی افراد نے بچوں سے مبینہ جنسی زیادتی کی تفتیش کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کا بائیکاٹ دوسرے دن بھی جاری رکھا ہے۔حسین خان والا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے بےگناہ افراد کے گھروں میں چھاپے مار کر نہ صرف انہیں ہراساں کیا جا رہا ہے بلکہ ا±ن کے خلاف جھوٹے مقدمے بھی درج کیے گئے ہیں۔گاوں والوں کے بقول جب تک ان کے خلاف جھوٹے مقدمات کو ختم نہیں کیا جاتا وہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا بائیکاٹ جاری رکھیں گے۔حسین خان والا کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ پولیس کی جانب سے بےگناہ افراد کے گھروں میں چھاپے مار کر نہ صرف ا±نہیں ہراساں کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بھی درج کیے گئے ہیںمتاثرین کے وکیل لطیف سرا کا کہنا ہے کہ پولیس نے اپنے جائز حقوق کے لیے مظاہرہ کرنے والے 90 معلوم اور چار سو سے زائد نامعلوم افراد کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر رکھا ہے ایسے میں گاو¿ں والے جے آئی ٹی کے سامنے پیش نہیں ہو سکتے۔وکیل کا کہنا ہے کہ یہ ایک نامکمل اور ادھوری جے آئی ٹی ہے کیونکہ اس میں فورینزک اور سائبر کرائم کے ماہر کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی ایسی کئی جے آئی ٹی بن چکی ہیں جن کے کوئی نتائج سامنے نہیں آئے اور اب بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔وکیل کا کہنا ہے کہ اگر پولیس نے بے گناہوں کے خلاف درج مقدمات کو ختم نہ کیا تو گاو¿ں والوں کے پاس اِس کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا ہے کہ وہ سیاسی کارکنوں ، سول سوسائٹی اور گاو¿ں کے رہائشوں کو اکٹھا کر کے لاہور کی طرف ایک لانگ مارچ کریں اور اِس سلسلے میں دینی، سیاسی اور این جی اوز کے ساتھ رابطے شروع کر دیے گئے ہیں۔لطیف سرا نے کہا کہ اگرچہ وہ متاثرین کے وکیل ہیں لیکن جے آئی ٹی انھیں تفتیش سے متعلق آگاہ نہیں کر رہی۔وکیل کا کہنا ہے کہ پولیس کی گاڑیاں گاوں کے چاروں طرف ایسے کھڑی ہیں جیسے یہ ایک غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہو۔متاثرین کے وکیل کی جانب سے عائد کیے گئے الزامات پر جب مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈی آئی جی ابوبکر خدا بخش سے ردعمل لینے کی کوشش کی گئی تو بارہا کوشش کے باوجود ان سے رابطہ ممکن نہیں ہو سکا۔

آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں


کالم



بابا جی سرکار کا بیٹا


حافظ صاحب کے ساتھ میرا تعارف چھ سال کی عمر میں…

سوئس سسٹم

سوئٹزر لینڈ کا نظام تعلیم باقی دنیا سے مختلف…

انٹرلاکن میں ایک دن

ہم مورج سے ایک دن کے لیے انٹرلاکن چلے گئے‘ انٹرلاکن…

مورج میں چھ دن

ہمیں تیسرے دن معلوم ہوا جس شہر کو ہم مورجس (Morges)…

سات سچائیاں

وہ سرخ آنکھوں سے ہمیں گھور رہا تھا‘ اس کی نوکیلی…

ماں کی محبت کے 4800 سال

آج سے پانچ ہزار سال قبل تائی چنگ کی جگہ کوئی نامعلوم…

سچا اور کھرا انقلابی لیڈر

باپ کی تنخواہ صرف سولہ سو روپے تھے‘ اتنی قلیل…

کرایہ

میں نے پانی دیا اور انہوں نے پیار سے پودے پر ہاتھ…

وہ دن دور نہیں

پہلا پیشہ گھڑیاں تھا‘ وہ ہول سیلر سے سستی گھڑیاں…

نیند کا ثواب

’’میرا خیال ہے آپ زیادہ بھوکے ہیں‘‘ اس نے مسکراتے…

حقیقتیں(دوسرا حصہ)

کامیابی آپ کو نہ ماننے والے لوگ آپ کی کامیابی…