کراچی (نیوزڈیسک) 70ء تک سیاست نظریہ، قیادت اور پروگرام سے رومانس تھی جس نے پرعزم اور باوفا کارکن دیئے جو بدعنوانی میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے، آج یہ ارب پتیوں کا کھیل ہے جو 150 میگا کرپشن کیسز یا کراچی میں غیرقانونی ذرائع سے230 ارب روپے کی وصولی اور سویلین و نان سویلین مافیا میں تقسیم سے ظاہر ہے،سینئرسیاسی تجزیہ نگارمظہرعباس کے مطابق اس صورتحال نے سیاسی کارکنوں کو لاتعلق کر دیا ہے چاہے اس کا تعلق دائیں جماعت سے ہو یا لبرل پارٹی سے ہو۔ سیاست اتنی بدعنوان کیوں ہو گئی؟ اور آگے کا راستہ کیا ہے؟ کیا یہ ہماری سیاست کا المیہ نہیں ہے کہ حکومت یا حزب اختلاف کی صورت میں40 برس سے قومی منظرنامے پر چھائی ہوئی جماعت ’’کرپشن کی خوداختیار کردہ بیماری‘‘ کے باعث اب ’’کوما‘‘ میں ہے۔ آج پاکستانی عوام عمران خان کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید آخری کرشماتی رہنما یا پھر پرانے لیڈر نواز شریف کی طرف جن کا پنجاب میں مضبوط گڑھ ہے، عمران پر کرپشن کا اب تک کوئی الزام نہیں ہے مگر یہ ہی بات ان کے دیگر پارٹی رہنمائوں اور خیبر پختونخوا میں ان کے وزیروں کے بارے میں نہیں کہی جا سکتی۔ بدعنوانی کی جڑیں بہت گہری ہیں، یہ اب ہمارے سیاسی کلچر کا حصہ اور تسلیم شدہ قاعدہ بن چکا ہے، بمشکل ہی کوئی ’’شفاف‘‘ ادارہ بچا ہو، اگر قوم پرست، قوم پرستی پروان چڑھانے میں ناکام رہے تو مذہبی جماعتیں بھی قوم کو متحد نہ کر سکیں اس کے برعکس انہوں نے1977ء میں نظام مصطفیٰؐ کے نام سے تحریک کے بعد سے قوم کو تقسیم کیا ہے لیکن پاکستان میں کوئی بھی جماعت منظم طور پر نقصان کا شکار نہ ہوئی جس طرح پیپلزپارٹی تاہم پی پی لیڈروں کے کرپٹ ہونے کے ساتھ میڈیا سمیت معاشرے کے دیگر طبقے بھی اس عفریت کا شکار ہوئے ہیں۔ ’’پارٹی ختم ہو گئی‘‘ کی اصطلاح 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد (پی این اے) کی تحریک کے دوران اس وقت کے امریکی پولیٹیکل افسر لاہور میں قونصل جنرل جین ایم گبنی نے استعمال کی تھی۔ بھٹو نے قومی اسمبلی میں جواب دیتے ہوئے کہا تھا ’’پارٹی ختم نہیں ہوئی‘‘ ہاتھی کے کان لمبے ہوتے ہیں۔ بریگیڈیئر (ر) اے آئی ترمذی نے اپنی کتاب میں مزید انکشاف کیا ہے کہ امریکی کس طرح تحریک کی مدد اور معاونت کرتے تھے بالاخر بھٹو کو پھانسی ہو گئی۔ عدالتی فیصلے سے بہت پہلے واشنگٹن سے اپنے امریکی مقامی افسر کو بھیجا گیا ایک ٹیلی گرام پکڑا گیا تھا جس میں بھٹو کی پھانسی یقینی بنانے کا پیغام تھا، پارٹی ایک اور بھٹو کے قتل تک زندہ رہی اس بار بھٹو کی بیٹی بینظیر کو 27 دسمبر2007ء کو قتل کیا گیا، یہ صرف اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم کی نہیں بلکہ پی پی کے نظریہ کی بھی تدفین تھی اس کے بعد پارٹی ارب پتیوں کی ہو گئی اور کرپشن کا کلچر آ گیا جو بالاخر تباہ کن ثابت ہوا اور قومی جماعت کا سندھ کے سوا تمام صوبوں سے صفایا ہو گیا۔ بھٹو اور بینظیر یقیناً قائداعظم کے بعد ملک کے کرشماتی لیڈر تھے جن کی جڑیں عوام میں تھیں، جنرل ضیاء الحق گیارہ سال تک پی پی کو کچلنے کی کوشش کرتے رہے لیکن1988ء کے بعد پارٹی پر کرپشن کے الزامات لگنا شروع ہوئے، پی پی پر 1967ء سے1987ء تک ایسا کوئی الزام نہیں تھا، یہ اتفاق ہو سکتا ہے مگر پی پی کے خلاف کرپشن کے بیشتر کیسز ایک شخص آصف زرداری کے گرد گھومتے ہیں جن کے باعث انہوں نے طویل جیل بھی کاٹی۔ جب نظریات کی سیاست ہوتی تھی تو سیاسی رہنما اور کارکن دہشت گردی، بدعنوانی یا دہشت گردی کی مالی مدد کرنے پر نہیں بلکہ سیاسی بنیاد پر جیل جاتے تھے، سیاستدانوں کو کچلنے کے لئے آج بھی قومی مفاد، نظریہ پاکستان یا ریاست کے خلاف کام کرنے کی اصطلاحات استعمال ہوتی تھیں لیکن اس کا آغاز 1950ء سے ہوا جب امریکی دبائو پر پاکستان نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی لگا دی، کمیونسٹ پارٹی پاکستان کے سیکرٹری جنرل حسن ناصر پہلے بڑے سیاسی لیڈر تھے جن کی موت شاہی قلعہ لاہور میں تشدد سے ہوئی۔ جماعت اسلامی کے امیر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کو ایوب خان کے دور میں اور شیخ مجیب کو اگرتلہ سازش کیس میں پھانسی کی سزائیں سنائی گئیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی جمہوری حکومت میں اپوزیشن رہنمائوں کو سیاسی بنیادوں پر جیل بھیجا گیا مگر ان میں سے کسی بھی لیڈر پر کرپشن کا الزام نہیں لگا، جب فیلڈ مارشل ایوب خان نے اپنے اقتدار کو طویل کرنے اور ’’سویلین لیڈر‘‘ بننے کا فیصلہ کیا تو کرپشن نے جڑ پکڑنا شروع کر دی پہلے خودساختہ بنیادی جمہوریت کے نظام پھر صدارتی الیکشن کے دوران اس کا مظاہرہ ہوا۔ شاید بقید حیات سینئر بیوروکریٹ روئیداد خان دوسروں سے زیادہ بہتر جانتے ہوں گے کہ آمروں نے اداروں کو کیسے کرپٹ کیا، 80ء کے عشرے کے بعد کی سیاست بدعنوانی سے آلودہ تھی، کرپٹ سیاستداں، صحافی، عدلیہ اور دانشور سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ تھے، منظم بدعنوانی کا پہلا بڑا انکشاف1988 ء میں اسلامی جمہوری اتحاد کی تشکیل کے دوران سامنے آیا اس کے بعد1989ء میں بینظیر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پھر مہران بینک اسکینڈل میں سیاستدانوں میں رقوم تقسیم کی گئیں، اسٹیبلشمنٹ نے پہلے سیاستدانوں کو کرپٹ کیا پھر سویلین حکومتوں کو بدعنوانی کے الزام لگا کر برطرف کر دیا، جونیجو حکومت، بینظیر و نواز حکومتوں کا دو، دو بار خاتمے کا مقصد سیاست کو کرپشن سے پاک کرنا نہیں تھا صرف نظام کو بدنام کرنا تھا، کرپٹ سیاستداں ٹریپ ہو گئے اور کل کے لکھ پتی کروڑ پتی آج ارب، کھرب پتی ہیں۔ نظریہ کی سیاست کی جگہ پلاٹس، چائنا کٹنگ، کمیشن کی سیاست نے لے لی ہے، متوسط طبقہ کرپشن سے زیادہ متاثر ہے حتیٰ کہ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی جیسی جماعتوں کو بھی اس موذی بیماری نے لپیٹ میں لیا ہے، پی پی اور اے این پی جیسی نظریاتی جماعتیں اپنا نظریاتی تشخص کھو چکی ہیں حتیٰ کہ مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام خود کو نہیں بچا سکی جماعت اسلامی پر پی این اے کی تحریک کے دوران فنڈز لینے کا الزام لگا اور ضیاء دور میں اپنا امیج خراب کر لیا تاہم جس طرح حکمراں جماعتوں پر کرپشن کے الزامات ہیں جماعت اسلامی پر ایسے کوئی الزامات نہیں لگے۔ یہ ہماری سیاسی تاریخ کا اہم موڑ ہے جب قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہی ہے، یہ اس کا بھی وقت ہے کہ تاریخی غلطیوں سے خود کو بچائیں جب کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست کو کرپٹ کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے لیکن سیاست آرٹیکل62 اور 63سے صاف نہیں ہو سکتی بلکہ اس کے لئے سیاسی تہذیب کو شفاف ٹیکس کلچر اور صاف ستھری بیوروکریسی (سویلین و ملٹری بیوروکریسی) کے ذریعے بدلنا ہو گا، ایک مضبوط، خودمختار، قابل بھروسہ اور کرپشن سے پاک احتساب بیورو چاہئے، نظریاتی سیاست کی بحالی شفاف سیاسی کلچر سے جڑی ہوئی ہے فی الوقت جمہوریت پر اعتماد کے بغیر، یہ ارب پتیوں کی سیاست ہے
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں