اسلام آباد(نیوزڈیسک)کسی بھی آزاد ملک میں اس الزام کو گالی سے تعبیر کیا جاتا ہے کہ اس کے بارے میں فیصلے کسی دوسرے ملک یا اس کی سرحدوں سے باہر کئے جا رہے ہیں یا باہر سے ہو کر آ رہے ہیں، عالمی نقشے پر پاکستان اس لحاظ سے اکلوتا ملک ہے جس کی سیاست اور حکومت کے حوالے سے فیصلے نہ صرف باہر ہوتے ہیں بلکہ ان کا کھلم کھلا اعلان بھی کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں بحث و تمحیص کے دوران استدلال اختیار کیا جاتا ہے کہ ایسا پاکستان میں طویل آمریت اور جابرانہ قوانین کی وجہ سے ہوتا آیا ہے، فی الوقت یہ دلیل کوئی وزن یا معنی نہیں رکھتی۔ ملک عزیز میں نہ صرف جمہوریت مروج ہے بلکہ کچھ زیادہ ہی روبہ عمل ہے، تحریر و تقریر کی وہ آزادی میسر ہے جس کا تصور شاید مادر جمہوریت برطانیہ میں بھی نہیں کیا جا سکتا، جلسے، جلوس اور احتجاج کے لئے پورا پاکستان کھلے میدان کی طرح دستیاب ہے، عدلیہ کی آزادی ضرب المثل کا درجہ اختیار کر چکی ہے، اتنی آزادیوں بلکہ بے محابا آزادیوں میں کسی سیاسی پارٹی یا گروپ کو ملک سے باہر ٹھکانہ بنانے یا رکھنے کا کسی طور پر کوئی جواز نہیں۔ پیپلزپارٹی سوئے اتفاق سے اس وقت سندھ کی بلاشرکت غیرے حکمراں ہے اس کے قلمرو میں وہ شہری علاقے بھی شامل ہیں جہاں اس کی نمائندگی کا درجہ صفر ہے، ایسے میں حکمراں پارٹی کے اجلاس بطور خاص بیرون ملک بالخصوص ایک عرب ملک میں منعقد کرنے کی کوئی توجیہہ نہیں ۔ عرب ممالک ہمیشہ سے اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرتے آئے ہیں کہ ان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کی سیاست کے لئے استعمال کیا جائے۔ پیپلزپارٹی کے سربراہ نے صوبے کے وزیراعلیٰ سمیت پورے حکومتی لشکر کو دبئی میں طلب کر لیا ہے۔۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ کسی سے خوفزدہ نہیں ہیں، انہیں لڑنا آتا ہے، وہ اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، اب وہ اپنی حکومت کی رہنمائی کے لئے اجلاس بھی غیرملک میں منعقد کر رہے ہیں۔ ایک ہفتے سے بھی کم ایام میں سندھ کی حکمراں پارٹی کا یہ دوسرا اجلاس ہے۔ روایات کے مطابق سندھ میں جہاں لوٹ مار آسمان کو چھو رہی ہے بعض سرکاری افسروں کی گوشمالی مقصود ہے، کچھ وزارتی قلمدانوں میں ردوبدل ناگزیر ہو گیا ہے اس طرح کرپشن کنگ اور کرپشن پرنس نے حساب کتاب لینا ہے تاکہ وزارتوں کی نئی بندر بانٹ کو حتمی شکل دی جائے۔ بہتر ہوتا کہ پیپلزپارٹی کے سربراہ ہمت سے کام لیتے اور وہ فیصلے جو صوبے سے سیکڑوں میل دور لوٹ مار کی دولت سے تعمیر کردہ عمارت کے بند کمرے میں کئے جا رہے ہیں یہاں اپنے سرکاری یا نجی گھروں میں کئے جاتے۔ یوں بھی سندھ میں چہروں کی تبدیلی سے کچھ درست ہونے والا نہیں ہے، وہاں تو مکمل جراحت درکار ہے تاکہ وہ لوگ جنہوں نے ملک اور اس کی متاع عزیز اداروں کو لوٹ کر تباہ و برباد کر دیا ہے ان سے لوٹی رقوم واگزار کرائی جائیں اور وہ نشان عبرت بنا دیئے جائیں تاکہ آئندہ کوئی ایسی روش اختیار نہ کر سکے۔ بدقسمتی سے یہ پراسرار اجلاس ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب سیلاب سے پورا ملک ڈوب رہا ہے، سندھ میں دریا بپھر کر کناروں سے باہر آ رہا ہے، انسانی آبادیاں تیزی سے اس کی لپیٹ میں آ رہی ہیں، صوبے کے دیہی علاقوں میں جہاں قبل ازیں سیکڑوں بچے قحط اور خوراک و صحت کی ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا چکے ہیں یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، اب سیلاب بھی تباہی و بربادی کو اپنے جلو میں لئے صوبے میں بڑھ رہا ہے ایسے میں وزیراعلیٰ اور وزراء کو کیونکر ملک چھوڑ کر دبئی میں نام نہاد صلاح مشوروں کے لئے چلے جانا زیب دیتا ہے۔ یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ دہشت گردی اور جرائم کے خلاف برسرپیکار مسلح افواج ہی سیلاب سے ہو رہی تباہ کاریوں پر قابو پانے اور متاثرین کی مدد کرنے کے لئے میدان عمل میں دکھائی دے رہی ہیں، اس مقصد کے لئے بری افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے تمام فیلڈ کمانڈروں کو فوری اور ضروری تدابیر اختیار کرنے کے احکام جاری کر دیئے ہیں۔ بری افواج ہی متاثرین کو خوراک اور ادویہ فراہم کر رہی ہیں، پنجاب بھی بری طرح متاثر ہو رہا ہے، ملک کے اس سب سے بڑے صوبے کے وزیراعلیٰ بھی ان دنوں سات سمندر پار جا چکے ہیں جہاں سے وہ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے صوبائی اور اضلاعی حکام کو ہدایات جاری کر رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ وزیراعلیٰ اپنی مصروفیات کو معرض التوا میں ڈال کر فوری طور پر وطن واپس پہنچتے اور برسرزمین معاملات کا جائزہ لے کر احکام جاری کرتے۔ ملک میں سیلابی صورتحال ناگہانی ہرگز نہیں ہے اس بارے میں پیشن گوئیاں گزشتہ ماہ سے جاری تھیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے وہ ادارے جنہیں قدرتی آفات سے نمٹنے کی ذمہ داری تفویض ہے ان کی طرف سے کئے گئے اقدامات فی الوقت ناکافی دکھائی دے رہے ہیں، بعض مقامات پر ان کی کارکردگی حد درجہ مایوس کن ہے۔ طغیانی اور بارشوں نے چترال میں وسیع پیمانے پر تباہی مچا دی ہے جس سے وہاں متعدد پل بہہ گئے ہیں، کٹائو کا عمل بڑے پیمانے پر جاری ہے، جان اور املاک کا نقصان ہو رہا ہے وہاں جس سرعت سے امدادی کارروائیوں کی ضرورت تھی اس میں مجرمانہ تساہل سے کام لیا گیا ہے۔ لاہور جیسے شہر میں بارشی پانی کا نکاس مسئلہ بن کر رہ گیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں بارش کے پانی نے شہریوں کو سخت پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے اسی نوع کی اطلاعات دوسرے شہروں سے بھی مل رہی ہیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کراچی میں بھی بارش ہو گی۔ شہریوں کی خواہش ہے کہ کراچی کو ماضی کی طرح بارش سے پیدا شدہ صورتحال کے کسی تلخ تجربے سے دوچار ہونے سے بچایا جائے اور دوسرے شہروں پر بھی خاطرخواہ توجہ دی جائے