پشاور(نیوزڈیسک)پشاور میں اغواء کی وارداتیں ایک منافع بخش کاروباربن چکی ہیں۔ بعض واقعات میں بچیوں کو اغواء کرکے سرحد پار افغانستان میں بیچ دیاجاتا ہے۔ پشاور کے نواحی دیہات احمد خیل سے عائشہ نامی بچی کو یکم مارچ کو مدرسے جاتے ہوئے راستے سے اغواء کیاگیا اور بعد ازاں وہ افغانستان سے بازیاب ہوئی۔ عائشہ کی خوش قسمتی تھی کہ وہ افغان پولیس کی ایک کارروائی میں بازیاب ہوکر واپس گھر پہنچ گئی۔ اس کے والد کہتے ہیں کہ اغواء کار خاتون افغان پولیس کی حراست میں ہے۔ دوسری جانب عائشہ کو واپس پاکر پورا خاندان خوش ہے۔ اغواء کار خاتون نگینہ افغان پولیس کی حراست میں ہے۔ یہ بچیاں اور خواتین اغواء ہوکر آخر جاتی کہاں ہیں، ایساسوال ہے جس کا جواب نہیں مل پایا تاہم اس مسئلے پر کام کرنےوالے ماہرین کہتے ہیں کہ ان اغواء ہونے والوں کی تعداد ہزاروں میں ہے۔ چیک کیاجائے بارڈر پر کہ یہ افغان بچے ہیں یا نہیں۔ پشاور میں بچو ں کے اغواء کے زیادہ تر کیسز پسماندہ علاقوں میں سامنے آئے ہیں۔ درجنوں کیسز ایسے ہیں جس میں بدنامی کے خوف سے رپورٹ پولیس تک پہنچتی ہی نہیں۔ پولیس کہتی ہے کہ پشاور میں رہائش پذیر افغان باشندے اغواء کی وارداتوں میں ملوث ہی