لاہور(نیوزڈیسک) پیپلز پارٹی کے رہنما اشرف سوہنا کے پیپلزپارٹی کو خیرباد کہہ دینے کے انتباہ کے بعد پیپلزپارٹی کی قیادت نے دو سابق وفاقی وزراءسے رابطہ کرلیا .سابق وزراءکے بارے میں اطلاعات تھیں کہ وہ بھی مختلف وجوہات کی بناءپر پارٹی کو خداحافظ کہنے والے ہیں۔پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے صدر منظور وٹو کی پارٹی قیادت کی ہدایت پر سابق وفاقی وزراءنذر گوندل اور صمصام بخاری سے رابطہ کرکے ان کے تحریک انصاف میں شامل ہونے کی افواہوںکے بارے میں بات چیت کی۔منظور وٹو نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ نذر گوندل اور صمصام بخاری دونوں ہی نے اس طرح کی رپورٹوں کو مسترد کردیا اور پارٹی اور اس کی قیادت کے ساتھ اپنی وابستگی کا اعادہ کیا۔جب ان سے پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ نذر گوندل کے تحفظات کے بارے میں دریافت کیا گیاتو منظور وٹو نے کہا کہ یہ تحفظات معمول کی بات ہے اور رہنما ایسے غیراہم مسئلے پر پارٹی نہیں چھوڑتے۔منڈی بہاءالدین کے گوندلوں کے ایک رشتہ دار سابق قانون ساز ریٹائرڈ میجر ذوالفقار گوندل نے کہاکہ ان میں سے کوئی بھی پارٹی نہیں چھوڑ رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بالکل ہمارے پی ٹی آئی میں دوست ہیں جو اکثر ہمیں اپنے ساتھ شامل ہونے پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاہم ہم نے اس طرح کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے پیپلزپارٹی کے ساتھ اس خاندان کے اختلافات کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کی حکومت نے گوندل فیملی کو سیاسی انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے ظفر گوندل کے خلاف ایک جھوٹا مقدمہ درج کرایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم آصف زرداری سے سوال کرتے ہیں کہ وہ وزیراعظم نواز شریف سے اس انتقامی کارروائی کو روکنے کےلئے کیوں نہیں کہتے، وہ تو نواز شریف کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ذوالفقار گوندل نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آصف علی زرداری کے ایک دوست، جنہیں بدعنوانی کے مقدمات میں سزا کے بعد زرداری نے (اپنے دور صدارت کے دوران) معافی دے دی تھی اس دوست نے ظفر گوندل کے خلاف میڈیا ٹرائل کروایا تھاانہوں نے کہا کہ زرداری اور ان کے خاندان کا یہ دوست آج بھی سابق صدر سے قریب ہے۔ذوالفقار گوندل نے دلیل دیتے ہوئے کہا کہ آخر فیڈرل انوسٹی گیشن ایجنسی رحمان ملک کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی جبکہ ان کے خلاف ماڈل ایان علی کے ذریعے منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے الزامات ہیں۔ یہ ثابت کردیا گیا تھاکہ یہ رحمان ملک کے بھائی خالد ملک کی رقم تھی،جسے یہ ماڈل دبئی لے جانے کی کوشش کررہی تھی۔انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم پیپلزپارٹی کو خدا حافظ کہہ رہے ہیں۔پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ایک اور رہنما نے بتایا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پارٹی رہنما اور کارکنان مایوسی کا شکار ہیں۔انہوں نے کہا کہ جب تک پیپلزپارٹی کی اعلیٰ قیادت مسلم لیگ (ن) کی ’بی ٹیم‘ کا کردار ادا کرنے ترک نہیں کرےگی اس کے بعض رہنماو ں کے دل میں پی ٹی آئی میں شمولیت کا خیال مضبوط ہوتا جائے گا۔ذوالفقار گوندل نے بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری دونوں پر زور دیا کہ وہ پارٹی کو بچانے کے لیے پنجاب میں کیمپ لگا کر کارکنوں کے تحفظات دور کریں انہوں نے کہا کہ صمصام بخاری اور بعض دوسرے رہنما دیگر جماعتوں میں شمولیت پر غور کرنے کا حق رکھتے ہیں۔اگرچہ صمصام بخاری کے کوئی تحفظات یا پیپلزپارٹی کی قیادت کے ساتھ پنجاب کے سابق وزیر اشرف سوہنا کی طرز کے اختلافات بھی نہیں ہیں، تاہم وہ موجودہ حالات میں پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہیں۔