نیو یارک:(نیوز ڈیسک)بچوں کی بہبود کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ سندھ میں پانچ سے بارہ سال کی عمر کے چار ملین کے قریب بچے تعلیم کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارے یونسف اور وفاقی محتسب کے نیشنل چلڈرن کمپلینٹ افس کی جانب سے جاری کی گئی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کے تمام صوبوں اور دیگر انتظامی علاقوں میں خواندگی کی صورتحال کا جائزہ لیا گیا ہے۔ سندھ، بلوچستان، پنجاب، خیبرپختونخواہ، فاٹا، گلگت بلتستان اور پاکستانی زیر انتظام کشمیر کے بارے میں تعلیمی صورت حال سے متعلق اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جنوبی صوبہ سندھ میں ایسے بچوں کی شرح سب سے زیادہ ہے جو اسکول نہیں جاتے۔نیشنل کمشنر برائے چلڈرن کمپلینٹ افس اعجاز احمد قریشی کے مطابق، ’’صوبہ سندھ میں پانچ سے بارہ سال کی عمر کے تقریباً چالیس فیصد بچے اسکول نہیں جاتے۔ اس طرح ایسے بچوں کی تعداد چار ملین کے قریب بنتی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیمی سطح پر لڑکیوں یا خواتین کی شرکت بھی ایک بڑا چیلینج ہے۔‘‘
رپورٹ کے مطابق سندھ میں لڑکے اور لڑکیوں کے اسکول میں داخلوں کے تناسب میں بھی کافی زیادہ فرق ہے۔ یہ فرق دیہی علاقوں میں زیادہ نظر اتا ہے جہاں بچیوں کے پرائمری اسکولوں میں داخلوں کا تناسب صرف 31 فیصد تھا۔ رپورٹ میں بچیوں کے اسکولوں میں کم داخلوں کی وجوہات میں خواتین دوست سہولیات کی عدم دستیابی مثلاً علیحدہ ٹوائلٹ، اسکول کی باونڈری دیواریں نہ ہونا اور خواتین اساتذہ کی کمی کو قرار دیا گیا ہے۔یونیسف اور چلڈرن کمپلینٹ آفس کی اس رپورٹ کے مطابق تعلیم کی جانب راغب نہ ہونے کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ اسکولوں کی کمی، موجودہ اسکولوں کا ابتر انفراسٹرکچر، تعلیمی مواد اور کمیونٹی کی سطح پر بامعنی شرکت کا نہ ہونا شامل ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم نا مکمل چھوڑنا، طالب علموں سے سیکھنے کے جس درجے کی توقع کی جاتی ہے اس کی عدم موجودگی اور غیر منظم نجی اسکول بھی نا خواندگی کی بڑی وجوہات میں شامل ہیں۔ساوتھ ایشین فارم فارایجوکیشن ڈویلپمنٹ (SAFED) کی ایک حالیہ رپورٹ میں بھی سندھ اور خصوصاً دیہی علاقوں میں خواندگی کی ابتر صورتحال کی جانب اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ رپورٹ سندھ کے چھ اضلاع میں کیے جانے والے ایک جائزے کے بعد پیش کی گئی تھی۔ اس کے مطابق سندھ کے دیہی علاقوں میں 32 فیصد بچے اسکول جانے سے محروم ہیں اور اردو یا سندھی میں تحریر جملے نہیں پڑھ سکتے۔ ان اضلاع کے 66.5 فیصد بچے انگریزی میں لکھی تحریر نہیں پڑھ سکتے جبکہ 73فیصد بچے سادہ دو عددی تفریق کے سوالات بھی حل نہیں کر سکتے۔سندھ میں اتنی بڑی تعداد میں ناخواندگی کی ایک اور بڑی وجہ ’گھوسٹ اسکول‘ کی موجودگی ہے جن کا وجود صرف کاغذات تک محدود ہے۔ ان بھوت اسکولوں کے حوالے سے کام کرنے والی ایک اور غیر سراری تنظیم NOW COMMUNITY سے وابسطہ کارکن ولیم صادق کہتے ہیں، ’’یہ صورتحال صرف دیہی علاقوں تک محدود نہیں ہے۔ ہمارے شہری علاقوں میں بعض سرکاری اسکولوں کی یہ حالت ہے کہ والدین ان اسکولوں میں بچوں کو داخل نہیں کراتے مگر کاغذات دیکھے جائیں تو پتہ چلے گا کہ ان میں بتایا جا رہا ہے کہ اس اسکول میں دو سو سے بھی زیادہ بچے زیر تعلیم ہیں۔ اور ایسے بھی کئی اسکول سامنے ائے ہیں جہاں بچوں کی تعداد ایک یا دو ہوتی ہے اور دس سے گیارہ ٹیچر اس اسکول میں پڑھاتے ہیں۔‘‘اندرون سندھ تعلیم کے حوالے سے کام کرنے والی ایک غیر سرکاری تنظیم ساکار سوشل ویلفیئر کے جنرل سیکرٹری ریاض حسین چانڈیو نے ڈی ڈبلیوکو بتایا، ’’ہمارے سروے کے مطابق ہر ایک یونین کونسل میں اوسطا دو اسکول بند ہیں۔ ایک تو یہ ہے کہ لاڑکانہ جیسے شہروں کے اساتذہ کی ڈیوٹی اگر گاؤں کے اسکولوں میں لگ جائے تو وہاں وہ ڈیوٹی پر نہیں جاتے۔ دوسری بڑی وجہ محکمہ تعلیم کے اہلکاروں کی بدعنوانی ہے۔ وہ ایسے اساتذہ کی ماہانہ تنخواہ کا چار فیصد لیتے ہیں اور کاغذات میں ان کی حاضری ظاہر کر دیتے ہیں۔ اس نظام کو یہاں ویزا سسٹم کہا جاتا ہے۔‘‘
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دو برس قبل سندھ ہائیکورٹ کی طرف سے تیار کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ صوبے کے 6,721 گورنمنٹ اسکول اس وقت کام نہیں کر رہے تھے۔ یہ رپورٹ ملکی سپریم کورٹ کی ہدایت پر ڈسٹرکٹ اور سیشن ججوں کی طرف سے متعلقہ علاقوں اور اسکولوں کے باقاعدہ معائنوں کے بعد تیار کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق کْل 48 ہزار اسکولوں میں سے سات ہزار کے قریب ان اسکولوں کے لیے حکومت کی طرف سے مسلسل بجٹ فراہم کیا جا رہا تھا۔
سندھ میں 40 لاکھ بچے تعلیم سے محروم، یونیسف
29
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں