اسلام آباد(نیوزڈیسک)حکومت نے 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق درخواستوں پر اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے۔گزشتہ ہفتے سینئر وکیل عاصمہ جہانگیر کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں اور 21 ویں آئینی ترمیم کی حیثیت سپریم کورٹ میں چیلنج ہے، لہذا فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت کے تعین تک سزائے موت پر عملدرآمد روکا جائے جس پر چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روکتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا تھا۔حکومت کی جانب سے جمع کروائے گئے جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی سزا پر عملدرآمد روکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور پھانسیاں روکنے کا حکم دینے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی۔حکومتی جواب میں کہا گیا کہ اس کیس میں ابھی عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا باقی ہے اور اس بات کا بھی جائزہ لینا باقی ہے کہ عدالت آئینی ترمیم کے معاملات کا جائزہ لے بھی سکتی ہے یا نہیں، لہذا اختیارات کے تعین سے قبل پھانسی کی سزا پرعملدرآمد روکنے کا کوئی جواز نہیں۔ نجی ٹی و ی کے مطابق حکومتی جواب میں کہا گیا کہ ملکی حالات 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہیں اور فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرموں کے پاس اپیل کا پورا حق حاصل ہے۔جواب میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ پھانسیاں روکنے سے متعلق 16اپریل کا حکم نامہ واپس لیا جائے۔فل کورٹ بینچ اب (آج) بدھ کو 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرے گا۔