اسلام آباد (نیوز ڈیسک) حکومت نے فوجی عدالتوں کی جانب سے پھانسی کی سزا معطل کرنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کی مخالفت کردی ہے۔منگل کو 21 ویں آئینی ترمیم کے تحت فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق درخواستوں پر حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنا جواب جمع کرایا۔جواب میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ فوجی عدالتوں کی سزا پر عملدرآمد روکنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی اور پھانسیاں روکنے کا حکم دینے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی۔حکومتی جواب میں کہا گیا ہے کہ اس کیس میں ابھی عدالتی دائرہ اختیار کا تعین ہونا باقی ہے اور اس بات کا بھی جائزہ لینا باقی ہے کہ عدالت آئینی ترمیم کے معاملات کا جائزہ لے بھی سکتی ہے یا نہیں، لہذا اختیارات کے تعین سے قبل پھانسی کی سزا پرعملدرآمد روکنے کا کوئی جواز نہیں۔حکومتی جواب میں مزید کہا گیا ہے کہ ملکی حالات 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہیں اور فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے مجرموں کے پاس اپیل کا پورا حق حاصل ہے۔جواب میں عدالت سے استدعا کی گئی ہے کہ پھانسیاں روکنے سے متعلق 16اپریل کا حکم نامہ واپس لیا جائے۔یاد رہے کہ سینئر وکیل عاصمہ جہانگیر کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ فوجی عدالتوں اور 21 ویں آئینی ترمیم کی حیثیت سپریم کورٹ میں چیلنج ہے،
مزید پڑھئے:شیعہ عالم دین نے حوثیوں کے خلاف ’جہاد‘ واجب قرار دے دیا
لہذا فوجی عدالتوں کی آئینی حیثیت کے تعین تک سزائے موت پر عملدرآمد روکا جائے۔جس پر چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 17 رکنی فل کورٹ بینچ نے فوجی عدالتوں کی جانب سے پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روک دیا تھا۔فل کورٹ بینچ اب کل بروز منگل 21 ویں آئینی ترمیم اور فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرے گا۔