لاہور (نیوز ڈیسک)ملتان کے قریب گندم کی خریداری کے ایک سرکاری مرکز کے انچارج محمد ساجد کو اِن دنوں غیر معمولی ذمہ داری نبھانی پڑ رہی ہے۔ وہ اپنے مرکز میں پڑی ہوئی پرانی گندم کی صفائی کرا رہے ہیں حالانکہ روایتی طور پر اْنہیں کسانوں میں باردانہ تقسیم کر رہے ہونا چاہیے تھا تاکہ نئی گندم آنا شروع ہو۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’جب یہ موسم آتا ہے تو تقریباً تمام مراکز خالی ہو چْکے ہوتے ہیں۔ گندم کا ایک دانہ بھی نظر نہیں آتا۔‘محمد ساجد کے مرکز میں گندم کی بوریوں کے 44 ڈھیر ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے۔ اِس سال اْن کے ہاں 24 ڈھیر لگانے کی جگہ خالی ہے کیونکہ باقی جگہ پر پْرانی گندم کے 20 ڈھیر پڑے ہیں۔
پوری فصل آنے پر یہ گندم گیارہ سو روپے (فی من) پر بھی بِکتی نظر نہیں آ رہی۔ مارکیٹ ایک ہزار روپے سے اوپر جاتی نظر نہیں آ رہی۔پنجاب بھر میں خریداری کے سرکاری مراکز میں نئی گندم کی جگہ سْکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ملتان کے زرعی تجزیہ کار خواجہ شعیب کے بقول نئی گندم کے لیے کم جگہ کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ’نومبر تک چودہ لاکھ ٹن گندم برآمد ہوئی حالانکہ اپنے ملک کے ذخائر پورے تھے۔‘سرکاری ذرائع کے مطابق سرکاری گوداموں میں 30 لاکھ ٹن سے زائد گندم پڑی ہے۔ یہ جگہ نئی گندم کے لیے یکم بیساکھ تک خالی ہونی چاہیے تھی جو سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والے صوبے پنجاب میں کٹائی شروع ہونے کا روایتی دن قرار دیا جاتا ہے۔حالیہ بارشوں کے باعث بیشتر علاقوں میں کٹائی تاخیر کا شکار ہے۔ صوبائی حکومت نے 25 اپریل سے یہ خریداری کے سرکاری مراکز کھولنے کا اعلان کر رکھا ہے لیکن جنوب مشرقی علاقوں میں جِن کسانوں کو موقع مِل رہا ہے، وہ کٹائی کرکے اپنی گندم بیوپاریوں کو بیچنے میں دیر نہیں کر رہے۔تحصیل احمد پور شرقیہ کے محمد جاوید اْن میں سے ایک ہیں۔ تیرہ سو روپے فی من کی سرکاری قیمت انتظار نہیں کرنا چاہتے کیونکہ سرکاری مراکز میں لگے ہوئے ڈھیروں نے خدشہ پیدا کر دیا ہے کہ حکومت اْن کی گندم نہیں خریدے گی اور جتنی زیادہ گندم کٹتی گئی، بیوپاری اْتنی کم قیمت لگانا شروع کر دیں گے۔’پچھلے سال ساڑھے تیرہ سو روپے (فی من) بیچی تھی۔ اِس سال ساڑھے گیارہ سو میں بیچی ہے۔ بیوپاری کہہ رہے ہیں کہ قیمت مزیدکم ہو گی۔ پانچ ہزار روپے فی ایکڑ نقصان ہو رہا ہے۔‘پنجاب بھر میں خریداری کے سرکاری مراکز میں نئی گندم کی جگہ سْکڑی ہوئی دکھائی دیتی ہے
محمد جاوید کے ضلعے بہاولپور کی غلہ منڈی میں نئی گندم پہنچنا شروع ہو گئی ہے جہاں فی من قیمت ایک ہزار سے سوا گیارہ سو روپے فی من تک لگ رہی ہے۔اعظم قریشی آڑھتی ہیں اور فلور مِل بھی ہے۔ نئی گندم پر تقریباً چھ سال پْرانی قیمت لگتی دیکھ رہے ہیں۔’پوری فصل آنے پر یہ گندم گیارہ سو روپے (فی من) پر بھی بِکتی نظر نہیں آ رہی۔ مارکیٹ ایک ہزار روپے سے اوپر جاتی نظر نہیں آ رہی۔‘حکومت کے گوداموں میں پڑی گندم گزشتہ سال بارہ سو روپے فی من میں خریدی گئی۔ نئی فصل کی کٹائی سے پہلے حکومت نے کوشش کی کہ برآمد کنندگان پرانے ذخائر کم کرنے میں مدد دیں۔ تقربیاً دو سو روپے فی من رعایت کا اعلان کیا گیا۔ رعایتی قیمت بھی پْرکشش ثابت نہ ہوئی کیونکہ عالمی منڈیوں میں گندم کی فی من قیمت ساڑھے نو سو روپے فی من سے بھی کم ہے۔ چنانچہ سرکاری گودام بھرے کے بھرے رہ گئے۔امکانات ہیں کہ اس سال پاکستان میں تقریباً دو کروڑ چونسٹھ لاکھ ٹن گندم پیدا ہو گی جو تاریخی پیداوار ثابت ہو سکتی ہے۔ حالات عندیہ دے رہے ہیں کہ نئی گندم کسان، حکومت اور صارف سب کے لیے بھاری بننے جا رہی ہے اور فراوانی پریشانی بن رہی ہے۔سابق سیکریٹری خوراک و زراعت ظفر الطاف کے بقول 1998 میں جب ایسی صورتحال پیدا ہوئی تھی تو ’ہم نے بِسکٹ بنا کر بیچ دیے تھے‘۔
نئی گندم کسان، حکومت اور صارف سب پر بھاری؟
15
اپریل 2015
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں
آج کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبریں