سائنسدانوں نے ایمیزون کے جنگل میں قدیم تہذیبوں کی تلاش کے لیے ڈرونز کی مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ڈرون لیزر سے لیس ہوں گے جن سے ان گھنے جنگلات میں ہزاروں برس پرانی تعمیرات کی تلاش میں مدد ملے گی۔ اس منصوبے کا مقصد یہ اندازہ لگانا ہے کہ یہ قدیم آبادیاں کتنی بڑی تھیں اور ان کے باسیوں نے لینڈ سکیپ میں کس حد تک تبدیلیاں کی تھیں۔ محققین نے اس منصوبے کا اعلان سان ہوزے میں سائنسی ترقی کی امریکی ایسوسی ایشن کے سالانہ اجلاس میں کیا۔ برطانوی ماہرین کی سربراہی میں سرانجام پانے والی تحقیق کے لیے یورپی تحقیقاتی کونسل نے 17 لاکھ یورو کی امداد فراہم کی ہے۔ بنیادی مقصد یہ معلوم کرنا ہے کہ 1490 میں شروع ہونے والے کولمبین دور سے پہلے یعنی یورپی اقوام کی آمد سے 3000 سال قبل یہاں کتنی آبادی تھی اور ان کی سرگرمیاں کیا تھیں۔ کلچرل پارک لینڈ کی بین اقوامی ٹیم زمین پر بنی تقریباً چار میٹر لمبی مزید اشکال کا پتہ لگانے کی کوشش کرے گی جبکہ جنگل میں موجود 450 سے زائد ایسی جگہوں کو صاف کر دیا گیا ہے۔وئی بھی اس بارے میں وثوق سے نہیں بتا سکتا کہ زمین پر بنے یہ دائرے، مربع نما شکال اور لکیریں کس کی ترجمانی کرتی ہیں۔ شاید یہ رسم وروج کے مراکز تھے لیکن ایک بات قطعی ہے کہ یہ وہاں بسنے والوں کے اجتماعی رویوں کا ایک ثبوت ہے۔ برطانیہ کی ایکسٹر یونیورسٹی کے ڈاکٹر جوس اریرٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں آثارِ قدیمہ کے شعبے میں گرما گرم موضوع ایمیزون کے جنگلات کا ہی ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ اگرچہ چند محققین یہ خیال کرتے ہیں کہ ایمیزونیا شکاریوں کے ایک چھوٹے گروہ کا مسکن تھا جس میں کاشتکار بھی شامل تھے ان کا ماحول پر بہت کم اثر تھا اور یہی وجہ ہے کہ آج ہم اس جنگل کو عمدہ حالت میں دیکھ رہے ہیں جسے ہزاروں سال میں کسی نے نہیں چھوا۔ ڈاکٹر جوس اریرٹ کہتے ہیں کہ بعد میں سامنے آنے والے شواہد سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شاید ایسا نہیں تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ کلچرل پارک لینڈ کےمفروضے کے مطابق یہ شواہد بتاتے ہیں کہ شاید ایمیزونیا ایک بڑی گنجان اور مربوط نظام پر مشتمل تہذیب کا مسکن تھا اور اس نے ماحول پر گہرا اثر ڈالا۔ اس منصوبے میں استعمال ہونے والے ڈرون کے پروں کا درمیانی فاصلہ تین میٹر ہے۔ڈاکٹر اریرٹ کے منصوبے میں شامل یہ ڈرون منتخب کیے جانے والے علاقوں میں پرواز کریں گے اس سے یہ پتہ چلایا جائے گا کہ اب بھی کتنی اشکال ایمیزون جنگل میں چھپے ہوئے ہیں۔ لیزر سے لیس ڈرون سے نکلنے والی کچھ شعاعیں جنگل میں موجود درختوں کے پتوں سے ٹکرا کر واپس لوٹ جائیں گی جبکہ کچھ زمین تک پہنچیں گی۔ کیا درختوں کے نیچے زمین پر کچھ غیر معمولی ہے یہ جاننے کے لیے کمپیوٹر کے ذریعے حساب رکھنے والے آلے کی مدد لی جائےگی۔ زمین پر اشکال کی موجودگی کی صورت میں سائنس دان مٹی اور نباتات کی خصوصیات کی درجہ بندی کے مرحلے کی جانب بڑھیں گے۔ ایک عام فضائی جائزے سے آپ کو درختوں کی سطح ہی نظر آئے گی تاہم لیزر کی مدد سے آپ کو اس کا ڈیجیٹل نقشہ مل جائے گا جو درختوں سے ہوتا ہوا زمین تک سگنل بھیجے گا۔ یہ منصوبہ یورپی ایجنسیوں اور اداروں اور برازیل کےاشتراک سے تشکیل دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اریرٹ کہتے ہیں کہ ’ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ جنگل میں انسانوں کے قدموں کے نشانات کیا ہیں اور اس کےبعد ہم پالیسی بتائیں گے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ جس حیاتیاتی نظام کو ہم محفوظ کرنا چاہتے ہیں وہ ماضی میں جنگل کو تباہ کرنے کی وجہ سے بنی ہو۔‘