اسلام آباد (نیوز ڈیسک) امریکہ میں مقیم پاکستانی ڈاکٹروں اور تاجروں پر مشتمل ایک وفد کی سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین عمران خان سے اڈیالہ جیل میں ملاقات کا انکشاف ہوا ہے۔ معروف صحافی انصار عباسی کے مطابق یہ ملاقات اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سرکاری شخصیت کی موجودگی میں ہوئی، اور اس کا مقصد مبینہ طور پر عمران خان کو کچھ ریلیف دلوانے کے لیے راہ ہموار کرنا تھا۔
ذرائع کے مطابق، ان ملاقاتوں کا تعلق ان بیک چینل کوششوں سے نہیں جو ماضی میں پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں کے درمیان ہو چکی ہیں، تاہم امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ تازہ کوششیں ایک بار پھر دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کے دروازے کھول سکتی ہیں۔ ان بیک چینل رابطوں کی کامیابی کا انحصار عمران خان کے طرزِ عمل اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا بیانیے پر بھی ہوگا۔ادھر پی ٹی آئی رہنما اعظم سواتی نے اپنے بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ ان کے حوالے سے عمران خان سے منسوب کئی خبریں غلط ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ عمران خان سے جیل میں ملے، اس وقت بشریٰ بی بی بھی موجود تھیں۔
سواتی کے مطابق انہوں نے عمران خان سے دوٹوک انداز میں کہا کہ آپ کی ٹیم میں کچھ لوگ قابلِ بھروسہ نہیں، اور یہ کہ اب مانسہرہ میں انہیں پہلے جیسے عوامی حمایت حاصل نہیں رہی۔اعظم سواتی نے مزید بتایا کہ دسمبر 2022 میں عمران خان نے خود انہیں کہا تھا کہ وہ آرمی چیف سے بات کرنا چاہتے ہیں اور سواتی کو اس مقصد کے لیے رابطے کا کہا۔ ان کے بقول، انہوں نے فوجی قیادت تک رسائی کی کوشش ایک استاد کے ذریعے کی، اور صدر عارف علوی کے ذریعے بھی پیغام پہنچانے کی کوشش کی گئی، مگر کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔سواتی نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پارٹی کے بعض رہنما انہیں گھر سے لے کر گئے اور جلسہ ملتوی کروانے پر زور دیا۔
بیرسٹر گوہر بھی ان کے پاس آئے اور بعد ازاں انہیں اڈیالہ جیل لے جایا گیا، جہاں انہوں نے عمران خان سے مشورہ کر کے اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے لیے اپنی رضامندی ظاہر کی۔ عمران خان نے انہیں ہدایت کی کہ رابطوں کے بارے میں کسی کو نہ بتایا جائے، اور اگر دوسری جانب سے بات کرنے کی خواہش ہو، تو وہ پہلے دن سے تیار ہیں۔یہ تمام معاملات ایک بار پھر اس امر کی جانب اشارہ کر رہے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی سرگرمیاں کسی ممکنہ مفاہمت کا پیش خیمہ بن سکتی ہیں۔