چارسدہ (این این آئی)سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے اجلاس بلا کر علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی، علما کے مقابلے میں علما کو لایا جارہا ہے، حکومت اس معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے، اس وقت ہمیں حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں۔پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اجلاس بلا کر ملک میں علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی گئی، ہم ان علما کو بھی اپنی صف کے لوگوں میں شمار کرتے ہیں، دینی مدارس کے حقوق کی جنگ تمام مدارس اور علما کے لیے لڑ رہے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ہم ریاست سے تصادم نہیں بلکہ رجسٹریشن چاہتے ہیں، مدارس کے حوالے سے 2004 میں بھی قانون سازی ہوئی تھی، 2019 میں ایک نئے نظام کے لیے محض ایک معاہدہ کیا گیا۔سربراہ جے یو آئی نے کہا کہ الیکشن سے قبل پی ڈی ایم کی حکومت میں تمام پارٹیوں نے بل پر اتفاق رائے کیا تھا، بل کی پہلی خواندگی پر کوئی اختلاف رائے نہیں ہوا، دوسری خواندگی میں اداروں نے مداخلت کرکے قانون سازی رکوادی، 26 ویں آئینی ترمیم کے مرحلے کے دوران بل کی منظوری کے حوالے سے بات کی جس سے تمام اسٹیک ہولڈرز واقف تھے۔انہوں نے کہا کہ آج نیا شوشا چھوڑا گیا کہ یہ پہلے وزارت تعلیم کے ساتھ وابستہ تھے، ہم بتانا چاہتے ہیں کہ اس مسودے کے اندر تمام مدارس کو کسی بھی وفاق کے ساتھ الحاق کی مکمل آزادی دی گئی ہے چاہے وہ 1860 کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت یا وزارت تعلیم کے ساتھ منسلک ہونا چاہیں، ہم نے کوئی اعتراض نہیں کیا، ہر مدرسہ اس حوالے سے آزاد ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ اسے تنازع کے طور پر کیوں اٹھایا گیا؟ علما کے مقابلے میں علما کو کیوں لایا جارہا ہے؟ قوم اور مدارس کے طلبہ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ گزشتہ روز ہم حتمی اعلان کرنے کی طرف جارہے تھے لیکن صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سربراہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب کی طرف سے 17 دسمبر کو اجلاس بلائے جانے کے بعد اس فیصلے کو روک دیا ہے۔انہوںنے کہاکہ ہم قانون کی بات کررہے ہیں، مدرسوں کو ایک معاہدے سے وابستہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، ہم مدارس کو قانون کے تحت رجسٹر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، حکومت اس معاملے کو سیاسی اکھاڑا نہ بنائے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمیں حکومت کی کوئی تجویز قبول نہیں، حکومت کی کسی تجویز کو قبول کرنا تو دور اسے چمٹے سے پکڑنے کیلئے بھی تیار نہیں، بل پر تمام فریقین کا اتفاق رائے ہوچکا، فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کو قوم کے سامنے رکھا جائے، حکومت اور دیگر ادارے اس کو کیوں چھپا رہے ہیں، ان سب چیزوں کو عوام کے سامنے لایا جائے۔