کراچی(این این آئی) 2001 میں تعمیر شروع ہونے اور2007 میں اپنے کام کے آغاز کے بعد سے کے تقریباً سولہ سال بعدبھی گوادر بندرگاہ، ایک مہنگی اور غیر اقتصادی بندرگاہ بن کر رہ گئی ۔گوادر بندرگاہ پربنیادی ڈھانچے کی کمی اور سڑک اور ریل رابطے تاحال مناسب طریقے سے کام نہ کر سکنے کے سبب معقول تجارتی سرگرمیوں کی وجہ نہیں بن پائے ہیں۔
گوادر پورٹ اپنے افتتاح کے بعد سے گزشتہ سولہ سالوں میں کسی بھی قابل قدر تجارتی ٹریفک کو راغب کرنے میں ناکام رہا ہے جبکہ اس عرصہ میں حکومت گوادر میں ڈسچارج ہونے والی بلک کھاد اور گندم کی نقل و حمل کے لیے ٹرانسپورٹیشن چارجز میں سبسڈی دینے جیسے تکلیف دہ فیصلے لیتی رہی ہے۔
ذرائع کے مطابق سال2022-2023 میں، NFML کی طرف سے گوادر میں تین بحری جہازوں سے خارج ہونے والے تقریباً 95,000 میٹر یوریا کو منتقل کرنے کے لیے تقریباً 500 ملین روپے کی اضافی نقل و حمل کی لاگت ادا کی گئی۔ اس کے علاوہ 2023 میں، تقریباً 450,000 میٹرک ٹن روسی گندم جو کراچی اور بن قاسم بندرگاہ میں اتاری جانی تھی وہ گندم گوادر کی طرف موڑ دی گئی تھی۔
اضافی نقل و حمل کی لاگت، ڈیزل تیل کی اس وقت کی مروجہ لاگت کی بنیاد پر تقریباً 7000 روپے فیمیٹرک ٹن کے حساب سے حکومت کی 450,000 میٹرک ٹن گندم منتقل کرنے کے لیے خرچ کرنے پڑے اور غریب ٹیکس دہندگان پر 3.65 ارب روپے یا موجودہ شرح مبادلہ کے ساتھ تقریباً 11.10 ملین امریکی ڈالر کا بوجھ ڈالا گیا ۔ 3.65 بلین روپے کھاد اور گندم گوادر پورٹ پر اتارنے کیلئے اضافی ٹرانسپورٹ لاگت تھی جبکہ یہ گندم اور یوریا کراچی اور قاسم بندرگاہ پر ڈسچارج کرکے یہ رقم بچائی جاسکتی تھی جبکہ پاکستان جو اس وقت آئی ایم ایف سے قرضے لینے کی جدوجہد کررہا ہے وہ اس طرح کے غیرضروری نقصانات کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
کارگو ٹرانسپورٹ سیکٹر کے مطابق حکومت پاکستان رعایتی معاہدے کے مطابق گوادر پورٹ پر چائنا اوورسیز پورٹس ہولڈنگ کمپنی لمیٹڈ(سی او پی ایچ سی) کو کارگو فراہم کرنے کی پابند نہیں ہے،سی او پی ایچ سی گوادر پورٹ کے لیے کارگو کی حفاظت کا ذمہ دار ہے۔ٹرانسپورٹ سیکٹر کا کہنا ہے کہ حکومت آئی ایم ایف سے 1.2 بلین ڈالر کے قرض کے لیے جدوجہد کررہی ہے تو دوسری جانب اضافی ٹرانسپورٹیشن کی مد میں اربوں روپے کا نقصان بھی اٹھارہی ہے ۔
ذرائع کے مطابق 2021 میں عالمی بینک کی جانب سے پاکستان میں بندرگاہوں کے تجزیے کے لیے کی گئی ایک تحقیق میں پہلے ہی نشاندہی کی گئی ہے کہ گوادر بندرگاہ اس وقت تک استعمال میں نہیں رہے گی جب تک کہ اس کے مواصلاتی روابط معیشت کے مراکز کے ساتھ مکمل طور پر فعال نہیں ہوتے – جس کا صاف لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ جب تک ٹرانسپورٹرز کو واپسی پر مناسب روزگار نہیں مل جاتا۔ وہ ایندھن کی دگنی قیمت وصول کرتے رہیں گے اور اضافی مراعات کا مطالبہ کرتے رہیں گے اس طرح اشیا، خاص طور پر اناج اور کھاد کی قیمت ناقابل برداشت حد تک بڑھ جائے گی۔ گوادر شہر کی ترقی اور اس کی عوامی سہولیات پر اس قسم کی رقم خرچ کرنا کہیں زیادہ بہتر ہوگا تاکہ آبادی کی کثافت اور مختلف خدمات کے صارفین کو بڑھایا جاسکے۔