لاہور(این این آئی)چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا ہے کہ میرا یقین ہے کہ جسے اللہ کا خوف ہے وہ کرپشن نہیں کر سکتا،جو بھی کرپشن میں ملوث ہے اسے خدا کا خوف نہیں ہے،نیب قانون میں پلی بارگین اور والنٹیرئر ریٹرن کی شق کیوں رکھی گئی کیونکہ قانون سازوں نے خود اس میں یہ لکونا رکھا ہے،اگر پاکستان میں کرپشن چارجز پر سزائے موت کی سزا رکھی جائے تو پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا،
ہمارے تحقیقی افسران اور پراسیکیوٹرز زیادہ تربیت یافتہ نہیں ہیں،ججز کی بھی وائٹ کالر جرائم سے متعلق زیادہ تربیت نہیں ہے، ججز تقریر نہیں کرتے بلکہ فیصلہ دیتے ہیں،پاکستان اس وقت بین الاقوامی سطح پر مصالحتی کیسز میں بہت پیچھے ہے،سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے ریکوڈک کیس میں ہماری قانونی ٹیم کی کمزور تیاری کی نشاندہی کی،چیف جسٹس آف پاکستان اور فارن آفس کو درخواست کروں گا ججز اور جوڈیشل افسران کی بین الاقوامی ٹریننگ کا انعقاد کیا جائے۔
بین الاقوامی تنازعات کے ثالثی حل سے متعلق جوڈیشل کانفرنس کے دوسرے روز خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میرا یقین ہے کہ جسے اللہ کا خوف ہے وہ کرپشن نہیں کر سکتا،جو بھی کرپشن میں ملوث ہے اسے خدا کا خوف نہیں ہے،جسے اللہ کا خوف نہیں اسے کم از کم زیادہ سے زیادہ سخت سزا کا خوف ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ آج تک اینٹی کرپشن کے سالوں پرانے کیسز کے تحت ٹرائل کئے جا رہے ہیں۔نیب قانون میں پلی بارگین اور والنٹیرئر ریٹرن کی شق کیوں رکھی گئی کیونکہ قانون سازوں نے خود اس میں یہ لکونا رکھا ہے۔
اگر پاکستان میں کرپشن چارجز پر سزائے موت کی سزا رکھی جائے تو پاکستان سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا،ہمارے تحقیقی افسران اور پراسیکیوٹرز زیادہ تربیت یافتہ نہیں ہیں،ججز کی بھی وائٹ کالر جرائم سے متعلق زیادہ تربیت نہیں ہے،ہم ایڈیشنل سیشن ججز کو بطور سپیشل جج کے طور پر تعینات کرکے وائٹ کالر کرائم کا ٹرائل کر رہے ہیں،نیب نے اپنے پراسیکیوٹر کا ایک مضبوط سروس سٹرکچر نہیں بنایا،میں نے چیئرمین کو کہا کہ وہ پراسیکیوٹرز کا باقاعدہ سروس سٹرکچر بنائیں لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا،عدلیہ اور فوج کے اکاؤنٹبلٹی کے اپنے قوانین ہیں،ہائیکورٹس میں اپنے قواعد ہیں،سب کو ایک جامع قانون بنانا ہو گا جس کے تحت سب کا احتساب ہو،پاکستان میں کرپشن کے خاتمے کیلئے سخت میکنزم بنانا چاہیے۔
کانفرنس میں جسٹس جواد حسن،چیف جسٹس (ر)تصدق حسین جیلانی،جسٹس (ر)مشیر عالم کی۔سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس ندیم اختر، جسٹس فیصل کمال اور جسٹس سید یوسف سعید نے شرکت کی۔چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ جسٹس نعیم اختر افغان نے کہا کہ عدالتوں میں پیش ہونے والے وکلا ء کو پوری تیاری کے ساتھ آنا چاہیے،بیرون ممالک میں ججز اور وکلا ء کے ٹریننگ سیشنز منعقد کروائے جاتے ہیں،میری تجویز ہے پاکستان میں بھی اس طرح کے ٹریننگ سیشنز ہونے چاہئیں،ان سیشنز میں مصالحت سے ایشوز حل کرنے پر زیادہ توجہ ہو۔۔نیب قانون میں ترامیم سپریم کورٹ میں چیلنج اور زیر سماعت ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان وکلا ء کو سخت محنت کرنی چاہیے اور اساتذہ کی عزت کریں۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان جوڈیشری میں سخت احتساب کیا جارہا ہے۔سندھ ہائیکورٹ کے جسٹس عدنان اقبال چوہدری نے کہا کہ وکلا ء کی ججز بحالی تحریک میں رول آف لا ء کیلئے جدوجہد کا نعرہِ لگا،آزادی اظہار رائے سمیت بنیادی آئینی حقوق کے لیے بات کی گئی،رول آف لا ء کے اصول کا مطلب تمام شہریوں کیلئے مساوی حقوق ہے،رول آف لا ء کا مطلب ہے کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے،جس سوسائٹی میں قانون کی حکمرانی نہ ہو وہ تباہ ہوجاتی ہے،سیاسی، اجتماعی آئینی حقوق سب کو مساوی حاصل ہوں۔