اسلام آباد (این این آئی)سپریم کورٹ آف پاکستان نے ریور راوی اربن ڈویلپمنٹ منصوبے پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرتے ہوئے حکومت پنجاب کو منصوبے پر جزوی طور پر کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی۔ پیر کو جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس مظاہر علی نقوی پر مشتمل عدالت عظمیٰ کے 3 رکنی بینچ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت پنجاب کی
اپیلوں پر سماعت کی۔خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے راوی ریور فرنٹ اربن ڈیولپمنٹ منصوبے کے لیے زرعی زمین کے حصول کو غیر آئیی اور شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔ عدالت نے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی (روڈا) ایکٹ کی متعدد دفعات کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔عدالت نے راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو حکومت پنجاب کو 5 ارب روپے کا قرض 2 ماہ میں واپس کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اتھارٹی قوانین کی تعمیل میں ناکام ہوگئی اور ماسٹر پلان کے بغیر منصوبہ شروع کیا گیا۔لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف حکومت پنجاب نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی جس پر سماعت ہوئی۔عدالت نے استفسار کیا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل کیوں دائر نہیں کی گئی، جس پر پنجاب حکومت نے جواب دیا کہ ریلیف کا فورم سپریم کورٹ ہے۔دورانِ سماعت ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس عدالت کے سوالات کے جواب نہ دے سکے تو جسٹس اعجاز الاحسن نے ان کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے میں کیا غلطی ہے؟ آپ لوگوں کو یہ ہی علم نہیں کہ کیس ہے کیا؟ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہائی کورٹ نے جس کیس میں فیصلہ دیا اس میں درخواست گزار ہاؤسنگ سوسائٹیز تھیں، پنجاب حکومت اس میں فریق نہیں تھی۔جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے مجموعی طور پر 18 درخواستیں تھیں ایک میں فریق نہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا تکنیکی نکات میں نہ جائیں ٹھوس بات کریں، صوبائی حکومت کے وکلا عدالت میں غلط بیانی نہ کریں۔دورانِ سماعت بینچ نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل پنجاب دلائل کے دوران ساتھیوں کی جانب سے کان میں سرگوشی کرنے پر سرزنش کرتے یوئے کہا کہ خود ہی سمجھ نہیں آرہی کیس آخرہے کیا اور دلائل کیا دینے ہیں۔راوی اربن ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے وکیل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ ہائی کورٹ نے آرڈیننس کے اجرا کو تقویض کردہ اختیار قرار دیا ہے۔جسٹس اعجازا الاحسن نے کہا کہ ہائی کورٹ نے امریکی آئین کا حوالہ دیا ہے، امریکی اور پاکستانی حالات اور آئین مختلف ہیں۔وکیل روڈا نے کہا کہ ہائی کورٹ میں درخواست گزار ہاؤسنگ سوسائٹیز تھیں، جس پر جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ہاؤسنگ سوسائٹیز کے مفادات کا ٹکراؤ تو واضح ہے، پنجاب حکومت کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا کہ ہائی کورٹ مداخلت نہیں کر سکتی۔عدالت نے کہا کہ ہم تمام سوالات کا بغور جائزہ لیں گے اور دیکھیں گے کہ فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل بنتی ہے یا نہیں،
اگر انٹراکورٹ اپیل بنتی ہوئی تو کیس لاہور ہائیکورٹ بھجوا دیں گے۔عدالت نے کہا کہ اس سوال کا بھی جائزہ لیا جائے گا کہ انٹرا کورٹ اپیل کیوں دائر نہیں کی گئی۔سپریم کورٹ نے ہدایت کی کہ جن زمینوں کی مالکان کو معاوضے کی ادائیگی ہوچکی ہے ان پر کام جاری رکھا جا سکتا ہے، اور جن زمینوں کے مالکان کو ادائیگی نہیں ہوئی وہاں کام نہیں ہو سکتا۔ عدالت نے حکومتی اپیلوں پر فریقین کو
نوٹس جاری کردیے اور ہدایت کی فریقین ایک ماہ میں اضافی دستاویزات جمع کرا سکتے ہیں۔خیال رہے کہ ریور راوی منصوبہ لاہور کا ہاؤسنگ منصوبہ ہے جو دریائے راوی کے ساتھ شمال مشرق سے جنوب مغرب کی سمت 46 کلو میٹر پر محیط ہے۔ریور راوی منصوبے کے تحت 12 زونز اور 18 لاکھ رہائشی یونٹس قائم کیے جانے تھے۔افتتاح کے موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے کہا تھا کہ
ہم آئندہ تین برس تیزی سے کام کریں گے اور دہائیوں تک یہ منصوبہ یاد رکھا جائے گا۔وزیر اعلیٰ نے مذکورہ منصوبہ ملک کی ماحولیاتی اور معاشرتی ضرورت کو پورا کرنے والا قرار دیا تھا۔ترجمان پنجاب حکومت حسان خاور نے اس منصوبے کے حوالے سے بتایا تھا کہ اس سے زیرِ زمین پانی کی سطح بلند اور دریائے راوی کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔ان کا کہنا تھا کہ پہلا مرحلہ 15ہزار ایکڑ پر محیط ہوگا، یہ منصوبہ نجی سرمایہ کاری اور زرمبادلہ لائے گا، دریائے راوی کو ری چارج کرے گا جبکہ اس سے لاکھوں ملازمتیں پیدا ہوں گی۔