پنجاب میں صوبائی بیورو کریسی کا ڈھانچہ تار تار افسران کے تبادلے پی ٹی آئی ارکان اسمبلی کی مرضی سے بذریعہ واٹس ایپ ہونے لگے ، انصار عباسی کے تہلکہ خیز انکشافات

24  مارچ‬‮  2021

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)پنجاب میں بیورو کریسی کا ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کیونکہ متعدد مرتبہ کی تبدیلیوں کی وجہ سے بیوروکریٹس راستے کا پتھر بن کر رہ گئے ہیں۔روزنامہ جنگ میں انصار عباسی کی شائع خبر کے مطابق پنجاب میں جس انداز سے معاملات چلائے جا رہے ہیں اسے صوبے کی بیوروکریسی واٹس ایپ گورننس کا نام دیتی ہے

جس میں ایک بڑا واقعہ اسسٹنٹ کمشنر کلور کوٹ ضلع بھکر کا ہے جہاں بزدار حکومت ڈھائی سال کے عرصہ میں اب تک 14 اسسٹنٹ کمشنرز کو تبدیل کر چکی ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر کیلئے عہدے کی عمومی معیاد دو سے تین سال تک ہوتی ہے۔ اگر 6 چیف سیکریٹریز اور آئی جی پولیس کو تبدیل کیا جا چکا ہے اور وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کے عہدے پر پانچ افسران کو تبدیل کیا جا چکا ہے تو فیلڈ میں صوبائی محکموں کی صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ ایک ذریعے نے بتایا کہ کل ہی بزدار حکومت میں چھٹا کمشنر لاہور ہیڈکوارٹرز میں مقرر کیا گیا ہے۔گجرانوالہ ڈویژن میں ساتواں کمشنر لگایا جا چکا ہے۔ ذرائع کے مطابق، پنجاب میں بیوروکریسی کے ساتھ بدسلوکی کی وجہ سے صوبے میں بیوروکریسی کا ڈھانچہ تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی ایسی ڈویژن، ضلعی یا سب ڈویژن (تحصیل) باقی نہیں رہ گئی جہاں تواتر کے ساتھ ایسی تبدیلیاں نہ کی گئی ہوں جس کی وجہ سے انتظامیہ لحاظ سے کام کاج موثر انداز

سے نہیں ہو پا رہا جبکہ ترقیاتی کام بھی نہیں ہو رہے جبکہ ہر سطح پر طرز حکمرانی بھی موثر نہیں چاہے وہ پھر تحصیل ہو یا ضلع، ڈویژنل یا پھر صوبائی سطح۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مسئلے کو حل کرنے کی بجائے، حالیہ سینیٹ الیکشن کے دوران حکمران جماعت کے ارکان صوبائی

و قومی اسمبلیوں کے دبائو میں آ کر بزدار حکومت نے بے چینی اور ارکان پارلیمنٹ کی شکایات اور مسائل کا جو حل نکالا ہے اسے پنجاب میں حکومت کا واٹس ایپ ماڈل کہا جا رہا ہے۔ ذرائع کہتے ہیں کہ وزیراعلیٰ بزدار نے اپنے پرنسپل سیکریٹری طاہر خورشید کو اختیارات دیے

ہیں کہ وہ واٹس ایپ میسیج کے ذریعے ایسے افسران کا تبادلہ کر دیتے ہیں جن سے ارکان پارلیمنٹ خوش نہیں۔ صورتحال سے واقف ایک سینئر سرکاری ملازم نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کو پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ کا ذاتی ملازم بنا دیا گیا ہے۔ جس وقت کوئی فیلڈ افسر بالخصوص

اسسٹنٹ کمشنر، ڈی ایس پی، ڈی سی، ڈی پی او، تحصیل دار یا بلدیاتی حکومت کا کوئی افسر کوئی غیر قانونی حکم یا ناجائز مطالبہ ماننے سے انکار کرتا ہے تو اسے ضلع یا تحصیل سے باہر تبادلے کا واٹس ایپ پیغام بھیج دیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری کا کام ہے کہ

وہ سیاست دانوں کے مطالبات کو اچھی عوامی ایڈمنسٹریشن کے ساتھ توازن کے ساتھ لیکر چلائے، لیکن اس معاملے میں پرنسپل سیکریٹری ایسا جلاد (Executioner) بن چکا ہے جو ارکان پارلیمنٹ یا پھر وزیراعلیٰ آفس کے غیر قانونی احکامات نہ ماننے والے افسران کا

کام تمام کر دیتا ہے۔ ایک ذریعے نے بتایا کہ کل ہی کی بات ہے کہ لاہور کے صوبائی ہیڈکوارٹرز میں چھٹا کمشنر لگایا گیا ہے، کیپٹن عثمان دو سال تک شہباز شریف کے دور میں لاہور کے ڈی سی تھے، انہیں کمشنر لگایا گیا ہے جبکہ ان سے قبل جن افسران کو کمشنر لاہور کے

عہدے سے تبدیل کیا گیا ان کے نام مجتبیٰ پراچہ، کیپٹن سیف انجم، آصف بلال لودھی، داشن اور ذوالفقار گھمن تھے۔ حال ہی میں گجرانوالہ میں ساتواں کمشنر مقرر کیا گیا ہے۔ ڈویژن میں ان سے پہلے آنے والے کمشنرز کے نام اسد اللہ فیض، زاہد اختر زمان، ذوالفقار گھمن، سہیل اشرف

اور گلزار شاہ تھے۔ واٹس ایپ گورننس کیس میں سب سے اہم کیس اے سی کلور کوٹ ضلع بھکر کا ہے اور جب سے پی ٹی آئی کی حکومت آئی ہے اس عہدے پر گزشتہ 32 ماہ میں 14 اسسٹنٹ کمشنرز تبدیل کیے جا چکے ہیں۔ سینئر افسران کا کہنا ہے کہ اسسٹنٹ کمشنر انتظامیہ کے بنیادی

یونٹ کا سب سے بڑا افسر ہوتا ہے، وہ تمام محکموں کے چیف کو آرڈینیٹر کا کام کرتا ہے۔ وہ لینڈ ریونیو ایڈمنسٹریشن کا سربراہ ہوتا ہے اور ساتھ ہی سب ڈویژن کا کلکٹر بھی ہوتا ہے۔ وہ میونسپل ایڈمنسٹریشن کا سربراہ بھی ہے کیونکہ پی ٹی آئی حکومت نے تمام بلدیاتی حکومتوں کو تحلیل کر دیا ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر قدرتی آفات کی صورت میں فوکل پرسن کا کام بھی کرتا ہے اور سیلاب اور ٹڈی دل جیسے واقعات میں بھی نمایاں افسر ہوتا ہے۔ محرم کے دنوں میں اسسٹنٹ کمشنر کو امن عامہ کا کام بھی دیا جاتا ہے جبکہ ڈینگی اور پولیو جیسی مہمات میں بھی اہم کام لیا جاتا ہے۔

پی ٹی آئی حکومت کے پہلے ہفتے میں کلو رکوٹ سے جس اے سی کا تبادلہ کیا گیا ان کا نام کاشف جلیل تھا۔ ان کے بعد جو افسران آئے ان کے نام ان کے عہدے کی معیاد کے لحاظ سے یہاں پیش کیے جا رہے ہیں: غلام مصطفی خان تین ماہ، کاشف نواز ایک ماہ، غلام مرتضیٰ پانچ ماہ،

ظہور حسین دو ماہ، انور علی 17 دن، عمران جعفر 6 ہفتے، محمد زبیر ڈھائی ماہ، صابر حسین شاہ پانچ ماہ، حافظ عبدالمنان تین ماہ، افتخار حسین بلوچ تین ماہ، ماجد بن احمد 9 دن، حسن نذیر تین ماہ۔ اس کے بعد اب شبیر احمد کا تقرر 12 مارچ 2021 کو کیا گیا ہے۔ کلور کوٹ کے

رکن قومی اسمبلی ثنا اللہ مستی خیل ہیں۔ وہ 2002 سے 2008 تک ق لیگ کے رکن قومی اسمبلی تھے۔ اس کے بعد پی ایم ایل یونیفکیشن بلاک سے 2008 تا 2013 تک رکن اسمبلی رہے، اس کے بعد 2013 اور 2018 میں نون لیگ سے رکن منتخب ہوئے ہیں اور اب وہ پی ٹی آئی کے

رکن اسمبلی ہیں۔ سینئر افسران کا کہنا ہے کہ کلور کوٹ صرف ایک مثال ہے۔ دیگر علاقوں میں ممکن ہے اتنی بڑی تعداد میں تبدیلیاں نہ ہوئی ہوں لیکن تقریبا ًہر تحصیل اور ضلع کی سطح پر پنجاب میں متواتر تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ ایک ذریعے نے کہا کہ اگر 6 آئی جیز اور چیف سیکریٹریز

کو تبدیل کرکے چیک کیا گیا تو کسی تحصیل میں 14 اسسٹنٹ کمشنرز کی تبدیلی پر حیران نہیں ہونا چاہئے۔ ذریعے نے مزید کہا کہ ایک اسسٹنٹ کمشنر کے تقرر کا اوسط دورانیہ ڈھائی ماہ رہا ہے اور یہ صورتحال بچہ سقہ راج کے دور سے بھی خراب ہے۔ انہوں نے کہا کہ پبلک ایڈمنسٹریشن

کیلئے موت کی گھنٹی جیسی یہ صورتحال جاری رہی تو حیرانی اس بات پر ہونا چاہئے کہ آخر خراب کارکردگی کی صورت میں احتساب کس کا ہوگا ۔ چاہے یہ ریونیو جمع کرنے کا معاملہ ہو یا پھر میونسپل سروسز اور سوشل سروسز۔ ذریعے نے افسوس کا اظہار کیا کہ زمینی صورتحال

میں اس قدر بگاڑ کے بعد لگتا ہے کہ عام عوام کیلئے انتظامیہ باقی نہیں رہی۔ اس حوالے سے ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ طاہر خورشید وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکریٹری ہیں اور ان کا کام تقرریوں اور تبادلوں کا جائزہ لینا ہے۔ انہوں نے کہا کہ افسران کا تبادلہ ان کی کارکردگی اور عوام کے وسیع تر مفاد میں دیکھ کر کیا جاتا ہے۔

موضوعات:



کالم



رِٹ آف دی سٹیٹ


ٹیڈکازینسکی (Ted Kaczynski) 1942ء میں شکاگو میں پیدا ہوا‘…

عمران خان پر مولانا کی مہربانی

ڈاکٹر اقبال فنا کوہاٹ میں جے یو آئی کے مقامی لیڈر…

بھکارستان

پیٹرک لوٹ آسٹریلین صحافی اور سیاح ہے‘ یہ چند…

سرمایہ منتوں سے نہیں آتا

آج سے دس سال قبل میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ…

اللہ کے حوالے

سبحان کمالیہ کا رہائشی ہے اور یہ اے ایس ایف میں…

موت کی دہلیز پر

باباجی کے پاس ہر سوال کا جواب ہوتا تھا‘ ساہو…

ایران اور ایرانی معاشرہ(آخری حصہ)

ایرانی ٹیکنالوجی میں آگے ہیں‘ انہوں نے 2011ء میں…

ایران اور ایرانی معاشرہ

ایران میں پاکستان کا تاثر اچھا نہیں ‘ ہم اگر…

سعدی کے شیراز میں

حافظ شیرازی اس زمانے کے چاہت فتح علی خان تھے‘…

اصفہان میں ایک دن

اصفہان کاشان سے دو گھنٹے کی ڈرائیور پر واقع ہے‘…

کاشان کے گلابوں میں

کاشان قم سے ڈیڑھ گھنٹے کی ڈرائیو پر ہے‘ یہ سارا…