اسلام آباد(آن لائن)وزیراعظم ترقیاتی فنڈز کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے چار ایک کی تناسب سے لکھا اختلافی نوٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ 28 صفحات پر مشتمل اس اختلافی نوٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا ہے کہ ترقیاتی فنڈز سے متعلق وزیراعظم کا جواب آئین سے متنازع ہے۔آئین کے مطابق معاملہ کو دیکھنے کے بجائے غیر متوقع طور
پر معاملہ ہی نمٹا دیا گیا۔ مقدمہ کا اختتام حیران کن تھا۔جب تک بنچ میں موجود تمام ججز کے فیصلے پر دستخط نہ ہوں تب تک وہ فیصلہ قانونی نہیں ہوتا۔چیف جسٹس نے غیر قانونی فیصلہ دیا۔وزیراعظم ترقیاتی فنڈز کے معاملے کی تحقیق کی بجائے سپریم کورٹ کے جج کے خلاف فیصلہ دینا ایک غیر قانونی عمل ہے۔چیف جسٹس نے الزامات لگائے لیکن ٹھوس ثبوت نہیں دیئے۔چیف جسٹس کو سپریم کے جج پر جانبداری کا الزام لگانے سے پہلے شواہد دینے چاہیے تھے۔اٹارنی جنرل نے ترقیاتی فنڈز سے متعلق وضاحت دینے کے بجائے جج پر الزام لگادیا۔چیف جسٹس کو چاہئے تھا کہ قانون کے مطابق فیصلہ کرتے لیکن انہوں نے غیر قانونی فیصلہ جاری کیا۔چیف جسٹس کے غیر قانونی فیصلے کی کوئی اہمیت نہیں۔سینیٹ الیکشن سے قبل وزیراعظم نے اراکین کو ترقیاتی فنڈز دینے کا کہا،حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی ووٹوں کی خردوفروخت کا کہ رہی ہیں،اٹارنی جنرل نے تحقیقات کے بجائے جج کو شکایت کنندہ بنانے کی کوشش کی،تمام ججز کے
دستخط ہونے تک حکمنامہ قانونی نہیں ہوسکتا،وزیراعظم نے صدارتی ریفرنس کیخلاف درخواست دائر کی تھی،دیگر 13 افراد کیساتھ وزیراعظم کو بھی فریق بنایا گیا تھا،اگر وزیراعظم کو فریق بنانا وجہ تھی تو فریق بنچ کے تین ججز بھی تھے،سپریم جوڈیشل کونسل کا حصہ تین ججز
بھی بنچ میں شامل تھے،تحقیقات کے بجائے سپریم کورٹ کے جج کو آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے روکا گیا،پانچ رکنی بنچ کی تشکیل اور جسٹس مقبول باقر کو شامل نہ کرنے پر اعتراض کیا تھا،چیف جسٹس نے بنچ کی تشکیل پر اعتراض کا تحریری یا زبانی جواب نہیں دیا، اختلافی نوٹ
ریکارڈ کے مطابق چیف جسٹس کے زبانی حکم پر 5 رکنی لارجر بنچ بنایا گیا،10 فروری کے حکمنامہ میں کسی جج کو سماعت نہ کرنے کی کوئی ہدایت نہیں تھی،اٹارنی جنرل نے بھی بنچ میں شامل کسی جج پر اعتراض نہیں کیا تھا،وٹس ایپ پر ملنے والی دستاویزات کھلی عدالت
میں ججز اور حکومتی وکلا کو دیں،دستاویزات کی تصدیق نہ ہوتی تو بات وہیں ختم ہوسکتی تھی۔واضح رہے چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس فائز عیسیٰ کی طرف سے ایک اخباری تراشے پر لئے گئے نوٹس پر پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا۔ جس میں جسٹس فیض عیسیٰ بھی شامل تھے۔
چیف جسٹس کی سربراہی میں قائم اس وانچ رکنی بینچ نے معاملہ دوسری سماعت پر ہی نمٹا دیا۔ چیف جسٹس سمیت بینچ کے چار ججز کی طرف سے جاری حکم میں وزیر اعظم کی اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ دینے سے متعلق خبر کی تردید کو ناقابل قبول قرار دیا اور حکم دیا کہ
جسٹس فیض عیسیٰ کو وزیر اعظم سے متعلق کوئی معاملہ نہیں سننا چاہئیے کیوں کہ معزز جج ایک دوسرے مقدمہ میں وزیر اعظم کے خلاف فریق ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ دینے سے متعلق لئے گئے نوٹس پر اپنا اختلافی نوٹ جاری کیا ہے۔