اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)حکومت کا بجلی کے بلز سے نیلم جہلم سرچارج ختم کرنے کا فیصلہ ، یہ منصوبہ اپریل، 2018میں مکمل ہوچکا، ڈسکوز صارفین سے اب تک اضافی 15ارب روپے وصول کرچکی ہیں۔ روزنامہ جنگ میں خالد مصطفی کی شائع خبر کے مطابق، حکومت نے کل سے نیلم جہلم سرچارج ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ سرچارج جو
کہ 0.10روپے فی یونٹ بجلی کے بلز میں ہر صارف سے 04 جنوری، 2008 سے لیا جارہا تھا۔ نیلم جہلم ہائڈرو پاور پروجیکٹ کی تعمیر کے لیے حکومت سالانہ 6 ارب روپے صارفین سے وصول کررہی تھی۔ چوتھے نظرثانی شدہ پی سی۔1 پروجیکٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ پروجیکٹ کی لاگت 5.6 ارب روپے تک پہنچ چکی تھی لیکن بعد میں یہ پروجیکٹ 416 ارب روپے کے اصل تخمینے سے مکمل کیا گیا۔ اس حوالے سے پاور ڈویژن اقتصادی رابطہ کمیٹی کے کل ہونے والے اجلاس میں سمری پیش کرے گا اور نیلم جہلم سرچارج ختم کرنے کی منظوری لے گا۔ اس منصوبے سے 969 میگاواٹ بجلی اوسط 8.50 روپے فی یونٹ کے حساب سے بنائی جائے گی۔ اس کی تعمیر کا کانٹریکٹ جولائی، 2007 کو ایک چینی کمپنی کو دیا گیا تھا جس کے بعد یہ منصوبہ 2008 میں شروع ہوا تھا۔ یہ منصوبہ اگست، 2018 میں مکمل ہوا تھا اور اس نے 969 میگاواٹ سپلائی 14 اگست، 2018 سے شروع کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس
منصوبے نے کمرشل آپریشن اپریل 2018 میں شروع کیا تھا اور حکومت نے اسی روز سے سرچارج ختم کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے ڈسکوز نیلم جہلم سرچارج ڈھائی سال تک وصول کرتی رہیں۔ ڈسکوز ان 15 ارب روپے کو رکھنے کی مجاز نہیں ہیں۔ تمام ڈسکوز نے ان ڈھائی برس میں 15 ارب
روپے صارفین سے وصول کیے ہیں۔ اس کے باوجود انہوں نے یہ رقم نہ ہی واپڈا کو دی ہے اور نہ ہی نیلم جہلم ہائڈرو پاور کمپنی لمیٹڈ (این ایچ پی سی ایل) کو ادا کیے۔ 2 ستمبر، 2020 کو رانا تنویر حسین کی سربراہی میں ہونے والے پی اے سی اجلاس میں آڈیٹر جنرل آفس نے آگاہ کیا تھا کہ
حکومت نیلم جہلم ڈیم دو سال قبل مکمل ہونے کے باوجود سرچارج وصول کررہی ہے۔ حکومت نے 4جنوری، 2008کو نوٹیفکیشن کے ذریعے بجلی صارفین پر 31دسمبر، 2015 تک نیلم جہلم سرچارج عائد کیا تھا۔ لیکن یہ وقت گزرجانے کے باوجود حکام مذکورہ سرچارج وصول کرتے
رہے ہیں۔ پی ای سی اجلاس میں فیصلہ ہوا تھا کہ ڈسکوز نے جو اضافی سرچارج وصول کیا ہے اسے دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں استعمال کیا جائے گا۔ تاہم، ڈسکوز نے ایسا نہیں کیا۔ تاہم، حکومت کو چاہیئے کہ وہ 15 ارب روپے صارفین کو واپس لوٹائے۔ تاہم، اب یہ دیکھنا ہے کہ ای سی سی اجلاس میں کیا فیصلہ کیا جاتا ہے۔