اسلا م آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے فیصلے سے آئی ایم ایف سے مذاکرات میں مشکلات پیدا ہوگئی ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہمیں نہیں معلوم اس اچانک فیصلے کی وجہ سے آئی ایم ایف کو کس طرح مطمئن کریں گے۔روزنامہ جنگ میں مہتاب حیدر
کی شائع خبر کے مطابق، گریڈ 1 سے گریڈ 16 تک کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافی الائونس کے حکومتی فیصلے سے قومی خزانے پر 30 ارب روپے سالانہ تک کا بوجھ پڑے گا۔ یکم مارچ، 2021 سے 30 جون، 2021 تک چارہ ماہ کی مدت میں قومی خزانے پر 10 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔ ایسی صورت حال میں حکومت کے لیے مشکل ہوگا کہ وہ آئی ایم ایف کو کس طرح مطمئن کرے گی کیونکہ گزشتہ بجٹ 2020-21 میں آئی ایم ایف نے اس طرح کے اقدام کی سخت مخالفت کی تھی۔ پی ٹی آئی کے ایک اعلی عہدیدار نے بتایا ہے کہ انہوں نے آئی ایم ایف کو اس حوالے سے اعتماد میں لے لیا تھا کہ وہ آئندہ بجٹ 2021-22 میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ٹھوس اضافہ کریں گے۔ تاہم اس اچانک فیصلے کی وجہ سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے والے پاکستانی حکام مشکل صورت حال سے دوچار ہوگئے ہیں۔ عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہم اس اچانک فیصلے کی وجہ سے آئی ایم ایف کو کس
طرح مطمئن کریں گے۔ آئی ایم ایف نے ہی حکومت کو تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہیں کرنے دیا تھا اور کہا تھا کہ فنڈ پروگرام میں شامل رہنے کے لیے پاکستان کو مالی نظم و ضبط کا پابند رہنا ہوگا۔ اعلیٰ عہدیدار کا کہنا تھا کہ یہ اصولی معاہدہ ہوچکا تھا کہ آئندہ بجٹ میں
تنخواہوں اور پنشن میں خاطر خوا اضافہ کیا جائے گا۔ تاہم حالیہ فیصلے سے مذاکراتی ٹیم کی ساکھ متاثر ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ کے ”کیو بلاک” کے حاملین دو وجوہات کے سبب پریشان ہیں۔ ایک ایف9 پاک کو گروی رکھنے پر اور دوسرا تنخواہوں میں اچانک اضافے کی وجہ سے وہ پریشان ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مختلف محکموں کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں خاصافرق ہے، بعض محکموں کے ملازمین دگنی یا تین گنا تنخواہیں تک حاصل کررہے ہیں۔