اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک) 2018 میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ایک شہری نے قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کو خط لکھ کر کہا کہ وہ نئے منتخب ہونے والے چیف ایگزیکٹو کا ان کے ماضی کے چال چلن کا جائزہ لینا چاہتے ہیں تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ وہ ماضی میں قومی اسمبلی کے کتنے اجلاسوں میں شریک ہوئے اور ان کے عوض
انہیں کتنی مراعات، تنخواہ اور دیگر فوائد دیے گئے۔ روزنامہ جنگ میں عمر چیمہ کی شائع خبر کے مطابق اس شہری، شیر محمد چشتی، نے رائٹ آف ایکسس ٹو انفارمیشن (معلومات تک رسائی کے حق کے قانون) ایکٹ 2017 سے استفادہ کرنے کا فیصلہ کیا اور اسپیکر کو خط لکھ کر کہا کہ میرے پاس سابق حکمرانوں کے متعلق معلومات موجود ہیں جنہیں مختلف کتابوں میں مختلف مصنفین نے قلم بند کیا ہے۔ اب میں چاہتا ہوں کہ مختلف حلقوں سے اپنے موجودہ حکمران عمران خان نیازی، وزیراعظم پاکستان کے حوالے سے معلومات جمع کروں۔ اس مقصد کیلئے ان کے متعلق سوائے آپ کے دفتر کے سوا اور کہیں بھی معلومات دستیاب نہیں ہیں اس لئے آپ سے مودبانہ گزارش ہے کہ یہ معلومات فراہم کی جائیں۔ اس شہری نے عمران خان کی اسمبلی میں 2013 سے 2018 کے درمیان کی حاضری کا ریکارڈ اور ساتھ ہی ملنے والی مراعات، سہولتیں اور تنخواہ کی تفصیلات طلب کیں۔ اس کے بعد قومی اسمبلی کی جانب سے اس شہری سے ان کا
قومی شناختی کارڈ طلب کیا گیاتاکہ یہ معلوم کیاجا سکے کہ درخواست گزار پاکستانی شہری ہے بھی یا نہیں۔ چشتی نے اس امید کے ساتھ شناختی کارڈ کی کاپی فراہم کی کہ بس اب انہیں ان کی مطلوبہ معلومات مل جائے گی۔ لیکن وہ غلط سوچ ر ہے تھے۔ اس کے بعد انہیں قومی اسمبلی
کی ویب سائٹ کا لنک بھیجا گیا اور کہا گیا کہ اپنی مطلوبہ معلومات خود تلاش کر لیں۔ نیشنل اسمبلی کی ویب سائٹ پر اجلاس میں حاضر ہونے والے ارکان کی روزانہ کی فہرست تو موجود ہوتی ہے لیکن غیر حاضر ارکان کی فہرست نہیں ہوتی۔ صرف حاضر افراد کا نام فہرست میں موجود
ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، ویب سائٹ پر ہر رکن کی جانب سے حاصل کیے گئے فوائد و مراعات و سہولتوں اور تنخواہوں کا کوئی ذکر نہیں۔ ایک اور بات یہ بھی کہ ویب سائٹ پر اگر کچھ موجود ہے بھی تو ضروری نہیں کہ وہ معلومات حاصل کی جا سکتی ہے جیسا کہ چشتی کے معاملے میں
حاضری کی فہرست کے ساتھ ہوا۔ ویب سائٹ پر حاضری کا لنک تو ہے لیکن وہ کام نہیں کرتا۔ جب انہوں نے یکم جون تا پانچ جون 2013 سے لیکر یکم مئی تا 19 مئی 2015 تک جاری رہنے والے سیشنز کی حاضری کے لنک کو کلک کیا تو معلوم ہوا کہ وہ لنک کام نہیں کرتا۔ یہ وہ وقت تھا
جب ڈی چوک پر دھرنا دیا گیا اور پارلیمنٹ پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ، قومی اسمبلی کے اسپیکر نے رولنگ دیتے ہوئے معلومات تک رسائی کے حق کے تحت گزشتہ پانچ سال کے دوران عمران خان کی جانب سے وصول کی جانے والی تنخواہوں اور مراعات کا ریکارڈ دینے سے
فوری طور پر انکار کردیا۔ اس کے بعد چشتی نے پاکستان انفارمیشن کمیشن سے رجوع کیا جو سرکاری اداروں کی جانب سے معلومات فراہم نہ کیے جانے پر اپیل کا فورم سمجھا جانے والا کمیشن ہے۔ نیشنل اسمبلی سیکریٹریٹ کے نامزد کردہ افسر نے پاکستان انفارمیشن کمیشن کو بتایا کہ
قومی اسمبلی کے اسپیکر کی رولنگ یا فیصلے کو انفرادی فیصلہ نہیں بلکہ قومی اسمبلی کا متفقہ فیصلہ سمجھا جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ قومی اسمبلی کے اسپیکر کا فیصلہ اسی صورت کالعدم ہو سکتا ہے جب اسمبلی میں رول نمبر اٹھائیس کے تحت تحریک پیش کی جائے، اس
رول میں اسپیکر کے فیصلوں کی تکریم کا ذکر موجود ہے۔ تاہم، اس جواب سے کمیشن مطمئن نہ ہوا۔ تین رکنی کمیشن نے فیصلہ سنایا کہ کسی بھی رکن قومی اسمبلی کی تنخواہ و مراعات کی معلومات افشا کیے جانے سے کسی کی زندگی کو خطرات لاحق نہیں ہوتے اور یہ معاملہ تو براہِ راست ٹیکس دینے والے شہریوں کی دلچسپی سے جڑا ہے۔ کمیشن کا کہنا تھا کہ یہی نشاندہی برطانوی ہائی کورٹ نے برطانوی ارکان پارلیمنٹ کو کی جانے والی ادائیگیوں سے جڑے ایک کیس میں کی ہے۔