اسلام آباد (این این آئی) سپریم کورٹ نے وزیراعظم کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کے معاملے میں عمران خان کے دستخط شدہ جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے معاملہ نمٹا تے ہوئے کہا ہے کہ ہم دشمن نہیں عوام کے پیسے اور آئین کے محافظ ہیں، اْمید ہے
آپ بھی چاہیں گے کرپشن پر مبنی اقدامات نہ ہوں، کیا کرپٹ پریکٹس کیخلاف اقدامات، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں؟،معلوم نہیں وزیراعظم کو سیاسی اقدامات پر آئینی تحفظ حاصل ہے یا نہیں ؟تاہم ماضی میں عدالتیں وزرائے اعظم کو طلب کرتی رہی ہیں،کیا وزیراعظم کا کام لفافے تقسیم کرنا ہے؟۔جمعرات کو سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز جاری کرنے بارے لئے گئے نوٹس کی سماعت کی۔سماعت کے دوران وزیراعظم کے دستخط شدہ محکمہ خزانہ کا جواب پیش کیا گیا جس میں اراکین اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے کی خبر کی تردید کی گئی۔سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے وزیراعظم سے جواب مانگنے پر اعتراض کیاجس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو اعتراض آج کر رہے ہیں وہ کل کیوں نہیں کیا، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئینی سوال کسی بھی سطح پر اٹھایا جا سکتا ہے، کسی رکن اسمبلی کو
ترقیاتی فنڈز نہیں دیئے جا سکتے۔سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ کیا وزیر اعظم ذاتی حیثیت میں جوابدہ تھے؟ ،وزیراعظم کو آئینی تحفظ حاصل ہے، وزیراعظم اس وقت جوابدہ ہے جب معاملہ ان سے متعلق ہو، حکومت جوابدہ ہو تو وزیراعظم سے نہیں پوچھا جاسکتا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ عدالتی حکم میں جواب وزیراعظم کے سیکریٹری سے مانگا گیا تھا، حکومت سیکریٹریز کے ذریعے چلائی جاتی ہے۔انہوں نے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کوئی غیر قانونی حکم جاری نہ
کرنے دیا کریں۔جسٹس فائز عیسیٰ نے کہا کہ کل مجھے واٹس ایپ پر کسی نے کچھ دستاویزات بھیجی ہیں، حلقہ این اے 65 میں حکومتی اتحادی کو بھاری بھرکم فنڈز جاری کئے گئے ہیں۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کیا سڑک کی تعمیر کیلئے مخصوص حلقوں کو فنڈز دیئے جا
سکتے ہیں، کیا حلقے میں سڑک کیلئے فنڈز دینا قانون کے مطابق ہے؟۔انہوں نے کہا کہ ہم دشمن نہیں عوام کے پیسے اور آئین کے محافظ ہیں، اْمید ہے آپ بھی چاہیں گے کہ کرپشن پر مبنی اقدامات نہ ہوں۔انہوں نے کہا کہ میرے خلاف ٹوئٹس کی بھرمار ہورہی ہے، کیا کرپٹ پریکٹس کے
خلاف اقدامات، الیکشن کمیشن کی ذمہ داری نہیں۔انہوں نے کہا کہ معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو سیاسی اقدامات پر آئینی تحفظ حاصل ہے یا نہیں ؟تاہم ماضی میں عدالتیں وزرائے اعظم کو طلب کرتی رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کیا وزیراعظم کا کام لفافے تقسیم کرنا ہے۔جسٹس فائز عیسیٰ نے
ریمارکس دیئے کہ وزیراعظم نے کہا کہ پانچ سال کی مدت کم ہوتی ہے، وزیراعظم کو چاہیے کہ ووٹ میں توسیع کیلئے اسمبلی سے رجوع کریں۔ان کے ریمارکس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ واٹس ایپ والی دستاویزات آپ کی شکایت ہے، جائزہ لیں گے، جس پر جسٹس فائز عیسیٰ نے
کہا کہ مجھے شکایت کنندہ نہ کہیں میں صرف نشاندہی کر رہا ہوں، آپ نے شائد میری بات ہی نہیں سنی جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آپ کافی دیر سے آبزرویشن دے رہے ہیں، بات تو میری نہیں سنی گئی۔بعد ازاں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ وزیر اعظم کا جواب کافی مدلل ہے، جج اور وزیراعظم ایک مقدمے میں فریق ہیں، (تاہم) ہم وزیراعظم آفس کو کنفرنٹ کرنے نہیں بیٹھے جس کے بعد عدالت نے وزیراعظم کے جواب پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اراکین اسمبلی کو فنڈز دینے کا نوٹس نمٹا دیا۔